Maktaba Wahhabi

78 - 335
رحمانیہ دہلی ہی کے ترجمان رسالے ’’محدث‘‘ میں شائع شدہ مواد سے اخذ کی ہیں ۔ ماہنامہ ’’محدث‘‘ بنارس میں فاروق اعظمی صاحب کا مضمون بعنوان ’’دار الحدیث رحمانیہ دہلی مرحوم‘‘ اکتوبر ۱۹۸۴ء میں شائع ہوا تھا، جس کا اقتباس اوپر نقل کیا گیا ہے۔ محدث بنارس ہی کے حوالے سے یہ مضمون ’’الاعتصام‘‘ لاہور کے یکم مارچ ۱۹۸۵ء کے شمارے میں طبع ہوا، اس کے علاوہ ’’الارشاد جدید‘‘ کراچی میں بھی یہ مضمون شائع ہوا۔ مضمون کی اشاعت کے لگ بھگ تین برس بعد مولانا محمد اسلم سیف فیروز پوری (ماموں کانجن، پاکستان، متوفی ۱۴۱۷ھ) نے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور کے ۴؍ ستمبر اور ۱۱؍ ستمبر ۱۹۸۷ء کے شماروں میں دو قسطوں میں ’’دار الحدیث رحمانیہ دہلی کے قیام کا پسِ منظر‘‘ کے عنوان سے اعظمی صاحب کے مضمون پر ایک تعاقب شائع فرمایا، جو زیر بحث معاملے پر گفتگو کے علاوہ کچھ مزید تاریخی حقائق پر بھی مشتمل ہے، اس لیے اسے مکمل طور پر قارئین کے سامنے رکھ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے، مضمون اس طرح ہے: ’’ایک تعاقب از مولانا محمد اسلم سیف فیروز پوری ، ماموں کانجن‘‘ دار الحدیث رحمانیہ دہلی کے قیام کا پسِ منظر: ’’پندرہ روزہ ’’الارشاد جدید‘‘ کراچی کے جولائی کے تیرہ اور چودہ نمبر شمارے میں ’’دار الحدیث رحمانیہ دہلی‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون مولانا محمد فاروق اعظمی (جلگاؤں ) کا شائع ہوا ہے، جس میں موصوف نے دار الحدیث رحمانیہ دہلی کے قیام کا تاریخی پسِ منظر بیان فرمایا ہے۔ موصوف نے یہ لکھا ہے کہ دار الحدیث رحمانیہ کے محرک صاحبِ حسن البیان حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی تھے یا امام العصر حضرت مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی تھے، اس بارے میں راقم کو جو موثق اور مستند معلومات حاصل ہوئی، ہیں وہ قارئینِ الاعتصام کے پیشِ خدمت ہیں ۔
Flag Counter