Maktaba Wahhabi

85 - 335
کرنے کے بیچ کے وقفے میں ان کے بھانجے کے گم ہونے اور ملنے کا وہ حادثہ پیش آیا، جس کا ذکر مولانا رحیم آبادی کی سوانح حیات میں آیا ہے۔ مولانا رحیم آبادی اس وقت دہلی میں موجود تھے اور موقع کو غنیمت جانتے ہوئے دونوں بھائیوں کو مدرسہ قائم کرنے کے پروگرام کو عملی طور پر نافذ کرنے کا مشورہ دیا اور اس طرح مدرسے کی تاسیس عمل میں آئی۔ مولانا عبد الغفار حسن رحمانی جو دار الحدیث رحمانیہ کے فارغ التحصیل اور وہاں کے مدرس رہ چکے ہیں ، انھوں نے دار الحدیث رحمانیہ کے قیام کا پسِ منظر ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’دار الحدیث رحمانیہ کی تاسیس کا پس منظر‘‘: ’’جب ہندوستان میں آفتابِ اسلام ضیا پاشیاں کرتا ہوا جلوہ فگن ہوا تو یہاں بھی علمی چرچے شروع ہوئے اور ایک ایسی جماعت پیدا ہوئی، جس نے لوگوں کو شاہراہِ اسلام پر استوار اور گامزن کرنے کے لیے جد وجہد شروع کر دی، اس جماعت کی برکت سے قال اﷲ اور قال الرسول کی صدا کشورِ ہندوستان میں گونجنے لگی، مگر اس بابرکت جماعت کے اولو العزم حضرات آہستہ آہستہ اٹھنے شروع ہوئے۔ شاہ ولی اللہ، شاہ عبد العزیز، شاہ محمد اسحاق اور مولانا سید نذیر حسین صاحب، جیسے برگزیدہ باکمال حضرات علمی چشمے بہاتے ہوئے آخرت کو سدھار گئے۔ إنا اللّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔ ’’شیفتگانِ حدیث گوناگوں مصائب اور بوقلموں نوائب میں گرفتار ہوگئے، نہ ان کے لیے کوئی جامع درس گاہ تھی اور نہ صحیح معنی میں تربیت کا کوئی اہتمام۔ الحاد کا سیلاب عظیم ہر طرف تلاطم خیزی سے بڑھ رہا تھا، دہریت کی مسموم ہوائیں چہار جانب چل رہی تھیں ، طالبانِ دین کی کوئی
Flag Counter