Maktaba Wahhabi

281 - 335
’’مولانا محترم کو تفہیم کا اچھا ملکہ حاصل تھا، اس اندازسے بلند آواز میں وضاحت فرماتے کہ بات دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی۔ بہاری اہلِ علم کی گفتگو کا ایک خاص انداز ہے، بولتے وقت جھٹکا سا محسوس ہوتا ہے، لیکن کبھی آواز میں نرمی اور کبھی شدت، لیکن دونوں حالتوں میں لطافت پائی جاتی ہے۔ مولانا کا ادبی ذوق بہت اچھا تھا، اس لیے عام طور پر عربی ادب کی کتابیں وہ خود پڑھایا کرتے تھے، اگرچہ وہ اردو میں پڑھاتے تھے، لیکن تشریح کرتے ہوئے ان کا ادبی ذوق نمایاں ہو جاتا تھا، ان کی زندگی بہت سادہ تھی، ان کے ساتھ ایک لڑکا، جس کی عمر ۱۰ سال اور نام حمید تھا، رہتا تھا، باقی اہل و عیال وطن میں رہتے تھے۔ معلوم نہیں اب حمید کا کیا حال ہے؟‘‘[1] ’’ایک دوسری جگہ مولانا عبد الغفار فرماتے ہیں : ’’دارالحدیث رحمانیہ کے دیگر اساتذہ میں ایک مولانا عبد الرحمن بہاری الندوی بھی تھے۔ یہ پڑھانے میں اتنے ماہر تھے، معلوم ہوتا تھا گویا پڑھانے کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتے، ان سے بھی میں نے کافی کتابیں پڑھیں ۔۔۔ مولاناکو اﷲ کریم نے بڑی بلند اور پاٹ دار آوازسے نوازا تھا۔‘‘[2] 19۔ مولانا عبد الرزاق صاحب پشاوری: ’’یہ معقولات کے ماہر تھے، ان سے راقم الحروف نے سلم العلوم کا کچھ حصہ اور اسی طرح تفسیر بیضاوی جزوی طور پر پڑھی تھی۔ استاذ محترم کا چہرہ پوری طرح دیکھنا نصیب نہیں ہوا، وہ سخت گرمی کے زمانے میں بھی
Flag Counter