Maktaba Wahhabi

279 - 335
تھا، تاکہ معقولات کی تدریس میں مزید مہارت وگہرائی پیدا ہو اور ویسے بھی مولانا نذیر احمد رحمہ اللہ اپنے مزاج و شوق کے لحاظ سے معقولات سے شغف رکھتے تھے اور بڑے اچھے انداز سے مشکل مقامات کو حل کر دیا کرتے تھے۔ مولانا افغانی صاحب سلفی تونہ تھے، لیکن غیر مقلد تھے اور کچھ نہ کچھ اعتزال کا بھی چسکا تھا، لیکن بڑے خوش اخلاق اور متواضع انسان تھے اور معقولات میں قابلیت کے لحاظ سے بے مثال تھے، وہ فرمایا کرتے تھے، میں نے حمد اﷲ کی شرح عربی میں لکھی ہے، جس کا نام الاسوۃ الحسنی ہے، لیکن یہ کتاب زیورِ طبع سے آراستہ نہ ہوسکی۔ افسوس ہے کہ مولانا موصوف رحمانیہ میں ایک سال بھی نہ گزار سکے کہ ان کو ٹی۔بی ہوگئی۔ آخر کار وہ اسی مرض میں چل بسے۔ مولاناشریف اﷲ صاحب سواتی ان کے ہم زلف تھے۔ 16۔ مولانا شریف اﷲ صاحب سواتی: ’’مولاناعبدالسلام صاحب کے انتقال کے بعد مولانا سواتی معقولات پڑھانے کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔ جو کتابیں ادھوری رہ گئیں ، ان کو مولانا سواتی صاحب نے مکمل کرایا، خاص طورپراشارات اور قاضی مبارک۔ مولانا موصوف صبح سے ظہر تک مدرسہ فتح پوری میں معقولات پڑھایا کرتے تھے اور ظہر کے بعد تدریس کے لیے مدرسہ رحمانیہ تشریف لایا کرتے تھے۔ عرصہ درازسے پڑھاتے پڑھاتے منطق اور فلسفے کے مباحث ازبر ہو گئے تھے۔ وہ اس طرح پڑھاتے تھے، گویا کسی سے باتیں کر رہے ہیں ، یعنی تقریر و خطابت کا انداز نہیں ہوتا تھا، بلکہ بات چیت کا انداز ہو تا تھا، حنفیت میں متشدد نہ تھے۔[1]
Flag Counter