Maktaba Wahhabi

338 - 335
ہائے رحمانیہ! رحمانیہ کا اب نام ہی نام ہے۔ نام و نشان مٹ گیا۔ سیاسی آزادی کی صبح امید سے نامور دینی درس گاہ کے حق میں شامِ حسرت ثابت ہوئی۔ باڑہ ہند راؤ دہلی کے اس اسلامی ادارے کو دنیا کی نظر کھا گئی۔ متاعِ دین و دانش برسرِ عام لٹ گئی۔ ناگوار حالات کی نذر ہوگئی۔ قال اﷲ و قال الرسول کی صدائے دل نواز و ایمان افروز سے مدتوں گونجنے کے بعد اس کے در و دیوار اب خاموش ہیں ۔ اپنے لٹے پٹے کاروانِ علم و عمل پر نوحہ خواں ہیں ، ماتم کناں ہیں ، حسرت کی مورت ہیں اور اب تو اس کی روح پرو ر فضا اور اسلامی ماحول میں پلے ہوئے، پڑھے ہوئے، پروان چڑھے ہوئے علم و عمل کے نمونے بھی ایک ایک کر کے اٹھتے جاتے ہیں ۔ کیا یہ حالات کی ستم ظریفی اور لمحہ فکریہ نہیں کہ ملک غلام تھا تو یہ ادارہ جیتا جاگتا، جگمگاتا رہا، جب ملک آزاد ہوا تو اس ادارے کی روشنی گل ہوگئی؟ کیا گل کھلایا ہے زمانے نے! ؎ ہر بلائے کز آسماں آید گرچہ بر دیگرے قضا باشد بر زمیں نا رسیدہ می پرسد خانۂ مسلماں کجا باشد میں اس نخلستان کے عالمِ بہار کا عینی شاہد نہیں ہوں ، اس کی کیفیتِ خزاں کا مایوس تماشائی رہا ہوں ۔ میں نے اس شاہدِ جمال کی رعنائی نہیں دیکھی ہے، اس کے بدلے ہوئے تیور اور بکھرے ہوئے زلف و گیسو دیکھے ہیں ، تاہم دل خون ہوا ہے، جو اس وقت روشنائی کا کام دے رہا ہے، اس لیے یہ حدیثِ دردمندی جملہ معترضہ کی شکل میں طویل ہوگئی ہے۔ بات ذرا دور جا پڑی ہے ؎ منکر نہ تواں گشت اگر دم زنم از عشق ایں نشہ بہ من گرنہ بود باد گرے ہست (مولانا محمد ثناء اﷲ عمری، ماہنامہ ’’السراج‘‘ نیپال، خطیب الاسلام نمبر، ص: ۵۲۴)
Flag Counter