Maktaba Wahhabi

149 - 335
کا داخلہ شفوی امتحان کے ذریعے ہوا کرتا تھا اور اسی امتحان میں دیگر کوائف بھی معلوم کیے جاتے تھے۔ مشرقی اتر پردیش کے امیدوار طلبا کے لیے یہ سہولت تھی کہ رمضان المبارک کی تعطیل میں ’’املو مبارک پور‘‘ (اعظم گڑھ) جاکر مولانا نذیر احمد املوی (ناظم تعلیمات رحمانیہ) کی خدمت میں امتحانِ داخلہ دیتے اور نتیجے سے آگاہ ہو جایا کرتے۔ میرا داخلہ ۱۹۴۶ء میں ہوا تھا۔ عید کی چھٹی میں مولانا املوی کے مکان پر میرا امتحان ہوا اور فیصلہ ہوا کہ جماعت رابعہ میں داخلہ میرے لیے مفید ہوگا۔‘‘[1] ایک اور سوال کے جواب میں آپ فرماتے ہیں : ’’امتحان داخلہ سخت ہوتا تھا، اس میں کسی سفارش یا رعایت کی گنجایش نہیں ہوتی تھی، اس سے زیادہ امتحانات سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ میں مثالی سختی رہتی تھی، اس لیے وہی طلبا تعلیمی سلسلہ جاری رکھ پاتے جو محنتی اور علمی پختگی کے شوقین ہوتے تھے۔‘‘[2] واضح رہے کہ صرف داخلہ امتحان میں کامیابی مدرسے میں طالب علم کے مستقبل کی ضمانت نہ ہوتی تھی، کیوں کہ مدرسے کے اصول و قواعد میں یہ بات گزر چکی ہے کہ ’’ہر مدرس کا فرض ہوگا کہ جدید طلبا کے داخلے کے ایک ماہ بعد اس کی لیاقت کا اندازہ کرتے ہوئے ناظم کو رپورٹ کرے کہ وہ جس جماعت میں داخل ہے، اس کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں ۔‘‘ دیگر امتحانات: رحمانیہ میں سال میں تین امتحان ہوا کرتے تھے: سہ ماہی، شش ماہی اور سالانہ۔
Flag Counter