Maktaba Wahhabi

40 - 335
یہاں تک کہ ڈاڑھی تراشنے والے بھی بخشے نہیں جاتے، چاہے مدرسہ چھوڑ کر چلے جائیں ، کوئی پروا نہیں ۔ مدرسہ رحمانیہ کا نصابِ تعلیم ٹیٹھ درسِ نظامی والا تھا، جسے فنونِ عقلیہ ونقلیہ کا ملغوبہ کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ عملی دستور یہ تھا کہ ہر فن کی تدریس کے لیے اسی فن کے ماہر و قادر مدرس مقرر ہوتے، بالخصوص معقولات کی تعلیم کے لیے ماہر فن کا اہلِ حدیث ہونا بھی ضروری نہیں تھا۔ ہمارے زمانے میں دو مدرس غیر اہلِ حدیث تھے۔ تعلیمی معیار کی بلندی میں ایک عظیم کردار سالانہ امتحان تھا، اس کے لیے جلیل الشان عالم مولانا حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ (مشرقی پنجاب) واحد ممتحن ہوا کرتے تھے۔ محترم موصوف علومِ نقلیہ و عقلیہ کے جامع و ماہر اور سراپا زہد و تقویٰ تھے، ان کا چہرہ رعب و جلال کا مظہر تھا۔ سالانہ امتحان کی مقررہ تاریخوں سے ان کو مطلع کر دیا جاتا تو مدرسے کے نصاب کے مطابق ہر جماعت کی کتابوں کے پرچے تیار کرتے اور ان کو طبع کراکر مقررہ تاریخ و دن کو اپنے دو بھتیجوں کے ہمراہ مدرسے میں تشریف لاتے۔ کسی سے سلام و کلام کے بغیر خاموشی سے اپنی رہایش گاہ لائبریری ہال میں فروکش ہو جاتے۔ کسی کو یارا نہیں ہوتا تھا کہ ان کے پاس جا کر ملاقات کرسکے۔ امتحان کا سارا عمل اپنے تک محدود رکھتے، البتہ امتحان ہال میں پرچوں کی تقسیم اور نگرانی کی ساری ذمے داری اپنے ساتھ لائے ہوئے دونوں عزیزوں کے حوالے کر دیتے، جو بہ وقتِ امتحان طلبا کے سروں پر سوار رہتے۔ اس امتحان کی معیاریت و انفرادیت ایسی تھی، جس کا آج کوئی تصور نہیں ہے، مثلاً: ۱۔ ہر پرچہ انتہائی مختصر ترین سوالات پر مشتمل ہوتا، جس طرح قبر میں نکیرین کے تین مختصر سوالات ہوا کرتے ہیں ۔ نمونے کے طور پر دو سوال نقل کیے جاتے ہیں : شرح وقایہ ج ۲ کا ایک سوال: ’’فاسق ماجن کسے کہتے ہیں ؟‘‘
Flag Counter