Maktaba Wahhabi

39 - 335
تعلیم و تربیت کے اصول و ضوابط کی پابندی میں کسی قسم کی تساہلی، کوتاہی یا لچک کی گنجایش نہیں تھی۔ دروس کے مقررہ اوقات میں تاخیر یا تعجیل جرم شمار ہوتی تھی۔ ہر مدرس کو مدت مقررہ تک نصابِ تعلیم مکمل کرنا لازم ہوتا، ورنہ اس کی مدرسی خطرے میں پڑ جاتی۔ ایک مرتبہ شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی رحمہ اللہ نے مجھے بتایا کہ ان کی مدرسی کے ابتدائی دور میں کتاب ’’شافیہ‘‘ کا درس ان سے متعلق تھا، جو تکمیلِ نصاب سے تشنہ رہ گیا تھا، انھوں نے طلبا سے کہا کہ مہتمم صاحب (شیخ عطاء الرحمن) کے پاس کتاب لے جا کر بتا دو کہ عبید اللہ نے یہیں تک پڑھایا ہے، نصاب مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب کسی کوتاہی کی پردہ پوشی قابلِ مواخذہ سمجھی جاتی ہو تو کوتاہی کا کیا انجام ہوتا ہوگا؟ اسی طرح کا معاملہ طلبا کے ساتھ بھی تھا۔ ہر طالب کی پنج وقتہ نمازوں میں حاضری ضروری تھی۔ عصر کے بعد سے مغرب تک کا وقت مدرسے کے میدان میں طلبا کے کھیل کود اور تفریح کے لیے مقرر تھا۔ بعد نمازِ مغرب طعام سے فارغ ہوکر دو گھنٹے تک مطالعہ کتب میں مشغولیت ضروری تھی۔ اس دوران میں مدرسے کا منشی، جس کا دفتر مدرسے کے صدر گیٹ پر ہوا کرتا تھا، خفیہ طور پر غیر محسوس انداز میں طلبا کی موجودگی اور مشغولیتوں کا جائزہ لیتا رہتا۔ اگر کوئی غیر حاضر رہتا یا سنیما بینی وغیرہ کا مرتکب ہوتا تو منشی مہتمم صاحب کو مطلع کرتا اور مہتمم صاحب صبح کو تشریف لاکر ایسے طلبا کو خود سزا دیتے اور ان کا سامان مدرسے سے باہر پھینکوا کر نکال باہر کرتے۔ اس ذلت سے بچنے کے لیے بعض مجرم طلبا خود ہی خفیہ طور پر نکل بھاگتے۔ الغرض تعلیم کے ساتھ تربیتی نظام بھی سخت تھا۔ طلبا کے کردار واخلاق اور وضع قطع پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔ کوئی غیر شرعی حرکت و عمل سزا سے محفوظ نہیں رہتا تھا،
Flag Counter