Maktaba Wahhabi

256 - 335
کا بھی پتا دیتا ہے۔ یہ حافظ صاحب کا مجھ پر وہ احسان ہے، جو میرے لیے ناقابلِ فراموش ہے۔ اﷲ تعالیٰ مرحوم کو اپنی مخصوص عنایات سے نوازے، ان پر اپنی رحمتیں برسائے اور آخرت کی تمام مشکلات آسان کردے۔ آمین۔‘‘[1] وطن واپسی کے بعد مولانا تقریباً ایک سال تک گھر رہے۔ اواخر ۱۹۴۸ء سے اواخر ۱۹۴۹ء تک دار العلوم احمدیہ سلفیہ میں تدریسی خدمت انجام دی، جنوری ۱۹۵۰ء میں جامعہ رحمانیہ بنارس تشریف لائے اور اخیر عمر تک اسی سے متعلق رہے اور ۳۰؍ مئی ۱۹۶۵ء کو اس عالم فانی کو خیر باد کہہ گئے۔[2] 4۔ شیخ الحدیث علامہ عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری (۱۳۲۷۔ ۱۴۱۴ھ): آپ ممتاز عالمِ دین صاحب سیرۃ البخاری علامہ عبد السلام مبارک پوری کے صاحب زادے ہیں ۔ مدرسہ عالیہ مؤ، مدرسہ سراج العلوم بونڈھیار اور دار الحدیث رحمانیہ میں اپنے والد محترم کی نگرانی میں تعلیم حاصل کی۔ مولانا عبد السلام صاحب نے ان تینوں مدرسوں میں تدریسی خدمات انجام دیں اور ۱۹۲۴ء = ۱۳۴۲ھ میں دہلی میں گھنٹا گھر کے سامنے ایک بے لگام گھوڑے سے دب کر فوت ہوگئے۔ شیخ صاحب ۱۹۲۳ء = ۱۳۴۱ھ میں اپنے والد محترم کے ساتھ رحمانیہ آئے اور چوتھی جماعت میں داخل ہوئے۔ آپ کے خاص اساتذہ میں مولانا احمد اﷲ پرتاپ گڈھی، مولانا غلام یحییٰ کانپوری ، مولاناابوطاہر بہاری، مولانا عبدالوہاب آروی رحمہم اللہ ہیں ۔
Flag Counter