Maktaba Wahhabi

240 - 335
٭ مولانا عبد الغفار حسن رحمانی سے انٹر ویو لیتے وقت ایک مرتبہ یہ سوال کیا گیا کہ کسی اور مکتبِ فکر سے بھی آپ نے تعلیم حاصل کی ہے؟ موصوف نے جواب دیا: ’’رحمانیہ میں کافی حنفی اساتذہ بھی تھے، جن میں مولانا سکندر علی ہزاروی، مولانا محمد علی جالندھری اور مولانا عبد السلام افغانی خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔‘‘ اس کے بعد اس سوال کے جواب میں کہ ’’کیا حنفی اساتذہ متعصب تھے یا معتدل؟‘‘ مولانا فرماتے ہیں : ’’مولانا محمد علی جالندھری کافی متعصب تھے، جب کہ مولانا عبد السلام افغانی بڑے وسیع القلب اور وسیع الظرف تھے۔‘‘[1] ٭ مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی مولانا نذیر احمد صاحب رحمانی کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’ اسی سال (۱۳۴۶ھ میں ) مدرسہ مذکور (رحمانیہ دہلی) میں مدرس کی حیثیت سے نور الانوار اور رشیدیہ تک کے اسباق آپ کے سپرد ہوئے، جناب عطاء الرحمن صاحب مالک ومہتمم دار الحدیث رحمانیہ (دہلی ) جو مردم شناسی اور خیر اندیشی کے سراپا سے مزین ہیں ، آپ کی ذہانت و ذکاوت کی وجہ سے آپ کو مدرسے کی تنخواہ حسبِ معمول پر مشہور عالم معقول مولانا فضل حق کی خدمت میں رام پور بھیجا، مگر یہاں ریاضی کا سلسلہ نہ ہونے کی وجہ سے بدایوں چلے گئے اور مولانا عبد السلام مرحوم سے، جو ان جملہ علوم میں فرد یگانہ تھے، ریاضی ومعقولات کی وہ کتابیں پڑھیں ، جو رحمانیہ کے نصاب سے باہر تھیں ۔ یہاں سے سندِ فراغ کے بعد رحمانیہ میں اپنی اسامی پر واپس تشریف لے آئے اور اب تک
Flag Counter