Maktaba Wahhabi

239 - 335
تھی۔ اس تعلق سے تذکرہ نگاروں کے بیانات ملاحظہ ہوں : ٭ حکیم عبد الکریم قریشی لکھتے ہیں : ’’ جیسے جیسے مدرسے کی عمارت تکمیل کے قریب پہنچ رہی تھی، علماے اہل حدیث کی نظریں مولانا میر سیالکوٹی کی رہبری میں بہتر سے بہتر قابلیت والے، زیادہ سے زیادہ تجربہ اور مہارت والے اپنے اپنے فن کے مخصوص ومشہور اساتذہ کی تلاش میں مصروف ومنہمک ہوگئیں ۔‘‘[1] ٭ جناب فاروق اعظمی صاحب حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ’’.....اس کے علاوہ اساتذہ کے انتخاب و تقرر میں مہتمم مدرسہ کی کوششیں بھی قابلِ ستایش تھیں ۔ مخلص اور محنتی اساتذہ کو چن چن کر لایا گیا تھا، جو طلبا کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنے کو ہمہ تن وقف کیے ہوئے تھے۔ منطق ومعقولات کے درس کے لیے بلا امتیاز حنفی، سلفی، ملک کے گوشے گوشے سے منجھے ہوئے اساتذہ کو گراں قدر مشاہرے پر رحمانیہ میں جمع کر لیا گیا تھا، چنانچہ مولانا غلام یحییٰ صاحب مدرسہ الہیات کانپور سے بلائے گئے تھے، مولانا عبد الحلیم صاحب کو ضلع مردان پشاور سے بلایا گیا تھا، مولانا عبدالسلام آگرہ سے آئے تھے، اسی طرح مولانا عبد الرحمن صاحب ٹونکی فتح پور سے اور مولانا عبد الرزاق صاحب مدرسہ ضیاء العلوم دہلی سے لائے گئے تھے۔ بعض لائق و فائق اساتذہ کو مختلف علوم و فنون کے جید علما کی خدمت میں مع مشاہرہ اور دیگر اخراجات کے بھیجا جاتا تھا تاکہ صحیح تربیت اور اچھی مہارت حاصل کرکے مدرسے کو لوٹیں اور طلبا کو فیض پہنچائیں ۔‘‘[2]
Flag Counter