Maktaba Wahhabi

220 - 335
’’طلبا کے مضامین کی اصلاح و ترمیم کی طرف توجہ نہیں کی گئی کہ اس حیثیت سے بھی آپ کو مدرسہ رحمانیہ کے طلبا کی لیاقت و قابلیت کا اندازہ کرنے کا موقع مل سکے اور آپ معلوم کرسکیں کہ عام مدارس عربیہ کے خلاف مدرسہ رحمانیہ کے طلبا کتابی استعداد کے ساتھ ساتھ مشق کی طرف بھی کس قدر کامیابی حاصل کر رہے ہیں ، اس سلسلے میں اتنا ضرور عرض کروں گا کہ ان مضامین کے پڑھتے وقت یہ تخیل آپ اپنے سامنے رکھیے کہ یہ ان طلبا کی ذاتی فکر و کاوش کا نتیجہ ہے، جو دن رات اپنے درس کی ٹھوس اور مشکل کتابوں ہی کے تکرار و مطالعے میں اپنے دماغ کو تھکا چکے ہوتے ہیں ، پھر عربیت کی مشق بھی کرنی ہوتی ہے، نیز ہر ہفتہ واری اجلاس میں تقریروں اور مناظروں کے لیے بھی تیاری کرنی پڑتی ہے۔‘‘[1] مدرسے کے حسنِ انتظام، ذمے داران و اساتذہ کی نگرانی اور توجہ اور طلبا کی محنت و مشقت کے بعض ثمرات و نتائج کے لیے درج ذیل اقتباسات ملاحظہ فرمائیں ۔ مولانا عبدالغفار حسن رحمانی اپنے ایک مضمون میں اپنے ایک استاذ مولانا محمد داود راغب شاہ جہاں پوری، جو رحمانیہ کے فارغ تھے، ان کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’...بہت ہی ذہین اور قابل طلبا میں شمار ہوتے تھے۔ رحمانیہ سے فارغ ہو کر وہیں کے مدرس ہوگئے۔ تقریبا ایک سال انھوں نے پڑھایا، ان کی خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے رحمانیہ کا پورا نصاب (جو آٹھ سال کا ہوتا تھا) چار سال میں ختم کردیا، یعنی ہر سال دو کلاسوں کا امتحان دیا کرتے تھے۔۔۔۔‘‘ [2] ۲۔ جریدہ ترجمان دہلی میں مفسر قرآن مولانا عبدالقیوم رحمانی کے بارے میں رسالہ
Flag Counter