Maktaba Wahhabi

221 - 335
محدث رحمانیہ دہلی کے حوالے سے درج ہے: ’’....نومبر ۱۹۳۸ء کے شمارے میں ادارے کی جانب سے جو مفصل رپورٹ شائع ہوئی ہے، اس میں مولانا کا ذکرِ خیر بڑے اچھے انداز میں کیا گیا ہے، اس رپورٹ سے حصولِ علم میں آپ کی محنت، دلچسپی اور لگن کا اندازہ بہ خوبی ہوتا ہے، رپورٹ ملاحظہ فرمائیں : ’’.....اس کے بعد پانچویں جماعت کے ایک طالب علم عبدالقیوم بستوی نے ترمذی شریف کی حدیثیں زبانی سنائیں ۔ دیکھنے والے حیران تھے کہ ممتحن صاحب نے کتاب (ترمذی شریف) منگوا کر اپنے سامنے رکھی اور جس باب سے متعلق فرماتے، فوراً اس کی حدیثیں فرفر یہ طالب علم سنانا شروع کر دیتا۔‘‘[1] مخصوص و ممتاز طلبا کے علاوہ مدرسے کے عام طلبا کا کیا معاملہ ہوتا تھا؟ اس کا اندازہ لگانے کے لیے اخبارِ محمدی دہلی میں شائع درج ذیل خبر ملاحظہ ہو: ’’..... اس مدرسے میں طلبا کی تحریری اور تقریری قابلیت اعلیٰ درجے پر پہنچانے کے لیے ایک صیغہ ہے، جس کا نام ’’جمعیۃ الخطابۃ‘‘ ہے، جس کا سالانہ جلسہ مدرسے کے شان دار ہال میں ۲۷؍ اکتوبر کو منعقد ہوا، جس میں قابل و لائق فائق طلبا نے عربی اردو میں برجستہ تقریریں کیں ۔ سب سے زیادہ ندرت کی بات یہ تھی کہ ان طلبا کو وقت سے پہلے کوئی مضمون نہیں دیا گیا تھا کہ وہ تیار ہو کر اس پر کوئی یاد کی ہوئی تقریر کریں ۔ طالب علم کو بلایا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ فلاں مضمون پر عربی میں تقریر کرو۔ تقریر شروع ہوتی تھی اور سامعین کی مسرت بر وقت بڑھتی رہتی تھی،
Flag Counter