Maktaba Wahhabi

219 - 335
’’علامہ فرمایا کرتے تھے کہ میں پورا پورا ہفتہ مدرسے سے باہر نہیں نکلتا تھا اور ہمہ وقت مطالعہ و کتب بینی میں مشغول رہتا۔ یہی معمول دارالحدیث رحمانیہ دہلی کے ایام طالب علمی میں بھی رہا۔ ہفتہ ہفتہ آپ مدرسے کے گیٹ سے باہر نہیں نکلتے۔ ہمیشہ اسباق حفظ کرنے، ادق عبارت حل کرنے اور مباحث و مسائل کو سمجھنے میں لگے رہتے۔ آپ فرماتے تھے کہ جب کبھی نکلتا تو جامع مسجد اور لال قلعہ میں جاتا، وہاں عیسائی پادریوں سے اناجیل مرقس، لوقا اور متی وغیرہ دوچار پیسہ میں خرید کر لاتا اور ان کا مطالعہ کرتا۔‘‘[1] مولانا رحمانی ایک جگہ اپنے بارے میں لکھتے ہیں : ’’.....مولانا سکندر علی ہزاروی منطق و فلسفہ کے استاد تھے۔ جب آپ رحمانیہ چھوڑ کر دوسری جگہ چلے گئے تو مولانا عبدالسلام صاحب درانی (جو امام الفقہ والمنطق تھے)آئے۔ مولانا درانی صاحب کے درس کا ایک واقعہ یہ ہے کہ میں پڑھنے میں بہت محنت کرتا تھا اور منطق و علمِ کلام کی کتابوں کو سمجھنے کی زیادہ کوشش کرتا تھا۔ میری کوشش یہ ہوتی تھی کہ مسئلہ استاذ کے سامنے حل ہوجائے، اس لیے میں سوال زیادہ کرتا تھا۔ میرے ساتھی کہتے کہ تم اساتذہ کو اتنا تنگ کیوں کرتے ہو؟ چلو باہر ہم سمجھا دیں ۔ تو میں کہتا۔ بھئی باہر (میدان میں ) تو لوگ پھری گتکا کھیلتے ہیں ، یہیں استاذ کے سامنے سمجھاؤ، تو وہ لوگ میرا منہ دیکھنے لگتے۔۔۔۔‘‘[2] مدرسے کے ناظمِ تعلیمات مولانا نذیر احمد املوی ایک جگہ طلبا کے ہاتھوں لکھے گئے مضامین کے متعلق لکھتے ہیں :
Flag Counter