Maktaba Wahhabi

218 - 335
لیے خطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی رحمہ اللہ کی تحریر کا اقتباس پیش کیا جا رہا ہے، موصوف لکھتے ہیں : ’’بالعموم میرا کام پڑھنے پڑھانے کا تھا اور شب و روز اسی مشغلے میں مشغول رہتا تھا۔ ضلع اٹاوہ وغیرہ کے پڑھنے والے رحمانی علما مجھ سے پہلے وفات پاگئے، جو میری محنت و مشقت کو دیکھ کر مجھ سے کہا کرتے تھے کہ تم دیوانے ہو جاؤ گے اور پاگل ہوکر مرو گے۔ میں ہمیشہ سبق کو حاصل کرکے آتا، اس کے بعد میرے کمرے میں کھانا آجاتا تھا، کیوں کہ میں نے فیس طعام دے کر ہی بنارس اور دہلی میں کھانا کھایا ہے، لیکن کھانا کمرے میں آکر رکھا رہتا تھا اور میں اپنی پڑھی ہوئی کتابوں کے سمجھے ہوئے مضمون کو لکھا کرتا تھا، یہاں تک کہ ظہر کی اذان ہوجاتی۔ ہم ظہر کی نماز پڑھ کر آتے تو اپنا کھانا کھاتے، اس وقت ناشتہ دان کا کھانا ٹھنڈا ہوجاتا تھا اور گوشت کے سالن پر ڈالڈا یا گھی وغیرہ جو ہوتا وہ جم جاتا، اس کو کائی کی طرح نکال کر میں باہر پھینکتا، صرف جمعہ کے دن گرم اور تازہ کھانا نصیب ہوتا تھا، کیونکہ اس دن کوئی سبق نوٹ نہیں کرنا ہوتا تھا۔ عموماً رات کے بارہ بجے کے بعد سوتا تھا۔ میں نے دلی میں پڑھنے کے زمانے میں کسی محلے یا بازار کو نہیں دیکھا۔ شاعر کا یہ شعر میرے اس حال پر منطبق ہے ؎ ہمیں دنیا سے کیا مطلب مدرسہ ہے وطن اپنا مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا‘‘[1] مولانا خورشید احمد سلفی مولانا رحمانی کے بارے میں لکھتے ہیں :
Flag Counter