Maktaba Wahhabi

319 - 325
۴۔ مذکورہ بالا دعا میں ’’بحق محمد النبی الامی‘‘یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک ’’محمد‘‘موجود ہے ‘جبکہ یہودیوں نے اپنے کسی آدمی کا نام کبھی بھی محمد نہیں رکھا تھا۔اس لئے کہ توراۃ کی اس پیشین گوئی کو جس میں نبی آخرالزماں کی بعثت کی بشارت ہے‘اس نبی کو وہ اسرائیلی نبی سمجھتے تھے۔چنانچہ ابولعالیہ کی روایت ہے کہ جب یہودی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ عربوں پر مدد مانگتے تھے تو کہتے تھے۔’’اے اﷲ‘اس نبی کو مبعوث فرما جس کے متعلق ہم اپنے پاس لکھا ہوا پاتے ہیں ‘تاکہ ہم مشرکین پر غالب ہوجائیں اور انہیں ہلاک کرڈالیں۔‘‘ لیکن جب اﷲنے حضرت محمد صلی اﷲعلیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور انہوں نے دیکھا کہ آپ تو ان میں سے نہیں ‘بلکہ عربوں میں سے ہیں تو حسد کے مارے آپ کا انکار کردیا۔حالانکہ دل سے وہ خوب جانتے تھے کہ آپ ہی نبی آخراالزماں ہیں ‘اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔فَلَمَّا جَائَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللّٰہ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ۵۔ اس روایت کے موضوع ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ محمد بن اسحاق اور ابوالعالیہ دونوں کی روایتوں میں لفظ’’محمد‘‘نہیں ہے بلکہ صرف ’’نبی آخرالزماں ‘‘ہے‘پھر دعا میں یہودی کس طرح ’’بحق محمد النبی‘‘پڑھ سکتے تھے ‘جیسا کہ دعا میں مذکور ہے۔معلوم ہوا کہ یہ سب طبع زاد باتیں ہیں جو بے سوچے سمجھے گڑھی گئی ہیں۔
Flag Counter