Maktaba Wahhabi

296 - 325
اور خاص طور پر یہ شعر۔ و لیس لنا ا لا الیک فرارنا وانی فرار الخلق الا الی الرسل اور سمجھ لیا کہ مصائب اور حوادث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام سے استغاثہ کرنا اور ان کی طرف رخ کرنا جائز ہے۔حالانکہ کلام عرب اور تمام اہل زبان اس غلط مفہوم کو رد کردیں گے ‘اور کوئی بھی اس سے یہ من گھڑت مفہوم نہیں سمجھے گا۔ اس شعر کا پس منظر اور سیدھا سادھا مطلب تو صرف یہ ہے کہ لوگ قحط اورخشک سالی برداشت کرتے کرتے اس حد تک مجبور وناتواں ہوگئے تھے کہ بچے کی ماں اپنے بچے کو بھی بھول گئی۔اور اب ہم مجبور ہوکر اے آنحضرت آپ کی خدمت میں آئے ہیں کہ آپ ہمارے لئے اﷲسے بارش کی دعا فرمادیں۔آپ کی دعا ہماری دعا کی طرح نہیں۔آپ تو آنحضرت ہیں ‘مستجاب الدعوات ہیں ‘لہٰذا اپنی دعا کے ذریعہ اس قحط اوربھوک مری کو دور کرنے میں ہماری مدد فرمائیں۔چنانچہ آپ نے دعافرمائی اور بارش سے لوگ سیراب ہوئے۔اب ا س پس منظر میں پہلے شعر پر غور فرمائیے کہ اعرابی اپنی شکایت اس طرح پیش کرتا ہے۔ اتیناک والعذراء یدمی لبانھا وقد شغلت ام الصبی عن الطفل ہم آپ کے پاس اس حالت میں آئے کہ کنواریوں کے سینے خون آلود تھے ‘اور بچے کی ماں اپنے بچے سے بے پرواہ ہوچکی تھی
Flag Counter