مفہوم لغت اور محاورے کے اعتبار سے ان کا ساتھ دیں یا نہ دیں مگر وہ اپنے مزعومات کو ثابت کرنے میں اتنے حریص اور اندھے ہوتے ہیں کہ لغت اور محاورہ سب کی پرواہ کئے بغیر لاطائل اور غلط مفہوم کا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔لیکن ان کے اس پروپیگنڈہ اور ذاتی تاویلات سے اصل مفہوم پر کچھ اثر نہیں پڑتا اور اہل علم وتحقیق ان کی غلط تاویلات سے کبھی فریب نہیں کھاتے۔
۱۔مثلاً اسی حدیث میں لفظ ’’یستسقی‘‘سے وہ سمجھ گئے کہ اعرابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کے جاہ کے وسیلہ کا طالب تھا حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اعرابی آپ سے محض بارش کی دعا کی درخواست کررہا تھا۔اگر اس کو آپ سے دعا کرانا مقصود نہ ہوتا ‘بلکہ وہ آپ کے جاہ وذات کے وسیلہ کا طالب ہوتا تو اس کو مدینہ طیبہ آکر آپ کی خدمت میں حاضری دینے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔وہ گھر ہی سے آپ کی ذات وجاہ کا وسیلہ لے کر دعامانگ لیتا۔
لیکن مدینہ وہ محض اس لئے آیا کہ اسے آپ سے دعا کرانی تھی ‘جیسا کہ حدیث میں صاف وضاحت موجود ہے کہ آپ اس کی بات سن کر منبر پر تشریف لائے اور استسقاء کیلئے خطبہ دیا اور اﷲسے دعامانگی۔اگر دیہاتی آپ سے دعا کا طالب نہ ہوتا تو آپ اس کے لئے دعا بھی نہ فرماتے۔
اسی طرح ان لوگوں نے اعرابی کے اشعار کو بھی اپنے لئے دلیل بنالیا
|