Maktaba Wahhabi

184 - 325
نَبْنِی کَمَا کانَتْ اَوَئِلُنَا تَبْنِی وَتَفْعَلُ مِثْلَ مَا فَعَلُوا ہمارے بزرگوں نے جس طرح اعمال کئے ویسے ہی ہم بھی کرتے ہیں شارح عقیدہ طحاویہ کابیان:دعا کی قبولیت اور صاحب وسیلہ کی نیکی کے درمیان کیا تعلق؟مثلاً وسیلہ لینے والا کہے گا کہ ’’اے اﷲ!تیرے فلاں بندے کے صالح ہونے کے سبب سے میری دعا قبول فرما۔‘‘آخر دعا سے اس کا کیا تعلق؟یہ تو دعا میں ایک طرح کی ہٹ دھرمی ہوئی ‘حالانکہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے: اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِ یْنَ(الاعراف:۵۵) ’’لوگواپنے رب سے چپکے چپکے اور عاجزی سے دعائیں مانگا کرو‘وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ یہ اور اس قسم کی دعائیں اہل بدعت ہی کا وظیفہ ہیں۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ‘تابعین عظام‘ائمہ ‘مجتہدین غرض کسی سے بھی اس قسم کی دعائیں منقول نہیں ‘بلکہ ان کا رواج تعویذ وگنڈے والے اصحاب طریقت ہی کے یہاں ہے۔ دعا تو افضل ترین عبادت ہے اور عبادت کی بنیاد سُنّت اور ا تباع پر ہے ‘ہوی وبدعات پر نہیں۔
Flag Counter