Maktaba Wahhabi

68 - 335
اور شیخ حبیب الرحمن کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے آنسوؤں کا منظر اب تک میری نگاہوں میں گھوم رہا ہے۔ مولانا کی تقریر کے بعد شیخ عبدالوہاب نے گلوگیر اور بھرائی ہوئی آواز میں فرمایا: ’’اب صبر و شکر کے سوا چارہ نہیں ۔ ہم یہاں اس لیے آئے ہیں کہ کل سے مدرسے کی تعلیم سابقہ معمول کے ساتھ مطابق شروع کر دی جائے۔ میں مدرسے کے لیے اتنا وقت تو نہیں دے سکتا، جتنا والد مرحوم دیا کرتے تھے، لیکن کوشش کروں گا کہ ہر روز کسی نہ کسی وقت آکر یہاں کے انتظامات کی دیکھ بھال کیا کروں ، سابقہ معیار اور انتظام میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہونے دی جائے گی، ان شاء اللہ۔ ’’اس کے بعد دعاؤں پر اس جلسے کا اختتام ہوا اور دوسرے دن سے رحمانیہ معمول کے مطابق اپنے کام پر لگ گیا، لیکن شیخ عبد الوہاب اپنی کاروباری مصروفیات سے اتنا وقت نہ نکال سکے کہ ہر روز رحمانیہ تشریف لاتے۔ تیسرے چوتھے دن تشریف لاتے، اس لیے مدرسے سے متعلق ساری ذمے داریاں مولانا (شیخ الحدیث عبید اﷲ رحمانی) مبارک پوری ۔مدظلہ۔ اور مولانا املوی مرحوم پر آپڑیں اور آپ حضرات نے اس بار کو اس طرح اُٹھایا کہ دار الحدیث رحمانیہ کے معمول میں کوئی فرق نہ آنے دیا، ﴿وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ھُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا﴾‘‘ [1] والد محترم مولانا محمد صاحب اعظمی حفظہ اللہ ، جنھوں نے تعلیمی سال ۴۷۔ ۱۹۴۶ء میں دار الحدیث رحمانیہ میں داخلہ لیا تھا، مدرسے سے متعلق لیے گئے ایک انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :
Flag Counter