Maktaba Wahhabi

67 - 335
آپ برابر روزانہ عموماً دو مرتبہ مدرسے میں تشریف لاتے ہیں ۔ وہی سرچشمی اور فیاضی آپ میں بھی موجود ہے، جو مرحوم میں تھی۔‘‘[1] دار الحدیث رحمانیہ کے فارغ التحصیل حضرت مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی رحمہ اللہ اس وقت کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’مہتمم دار الحدیث رحمانیہ دہلی کی وفات کے بعد مولانا (نذیر احمد)املوی مرحوم اور مولانا (شیخ الحدیث) مبارک پوری ۔مد ظلہ۔ پر نئی ذمے داریاں عائد ہوگئیں ۔ موصوف کی وفات کے وقت میں رحمانیہ میں زیرِ تعلیم تھا، اس حادثہ فاجعہ کے بعد دار الحدیث دو ایک روز تعلیم بند رہا، اس کے بعد شیخ عبد الوہاب اور شیخ حبیب الرحمن (پسران جناب شیخ عطاء الرحمن مرحوم) رحمانیہ تشریف لائے۔ صبح آٹھ بجے کا وقت رہا ہوگا۔ پورے ماحول پر اداسی طاری تھی۔ طلبا اور اساتذہ یکساں غم واندوہ کا شکار تھے، ان کے آتے ہی مدرسے کا گھنٹا بجا اور رحمانیہ کا ہر متنفس خاموشی کے ساتھ شیخ الحدیث کی درگاہ میں سمٹ آیا۔ مولانا نے غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی ایک اثر انگیز تقریر کی، جس میں طلبا اور اساتذہ سے مرحوم کی شفقت اور محبت کا ذکر تھا، ان سے فرزندوں اور عزیزوں کی طرح مرحوم کے برتاؤ کی یاد تھی، ان کی لغزشوں اور معمولی معمولی غلطیوں پر مرحوم کے عفو و درگزر کے تذکرے تھے۔ مرحوم کی نوازش و اکرام کے نہ بھلائے جانے والے واقعات کا اعادہ تھا۔ آپ کی وفات سے ملتِ اسلامیہ کو جو صدمہ پہنچا تھا، اس کے واضح اشارے تھے اور مرحوم کے حق میں دعاے مغفرت تھی، غرض کہ مولانا کی اس تقریر نے ہر شخص کو آبدیدہ کر دیا۔ شیخ عبد الوہاب
Flag Counter