Maktaba Wahhabi

63 - 335
ساتھ خصوصی محبت سے پیش آتے تھے اور ان کو مختلف مراعات بہم پہنچاتے تھے۔۔۔۔‘‘[1] 5۔ مولاناعبد القیوم بستوی رحمانیہ میں اپنے دورِ طالب علمی میں شیخ عطاء الرحمن کی وفات کے بعدان کی یاد میں لکھے ہوئے اپنے ایک مضمون میں فرماتے ہیں : ’’....... خصوصاً مولانا عبد العزیز صاحب محدث رحیم آبادی کے آپ بے حد معتقد تھے اور ان کی صحبت کا اتنا اثر پڑا کہ آپ محبتِ الٰہی کے رنگ میں رنگ گئے۔ جیسے وہ ولی اللہ، صاحبِ ہمت اور سخی تھے، ایسے ہی ان کی صحبت کی وجہ سے آپ بھی ایک صاحبِ ہمت و سخا اور مخلص دین دار بن گئے۔ مولانا کو بھی آپ سے اتنی محبت اور الفت تھی کہ کئی ایک چیزیں اپنی زندگی میں بطور یادگار آپ کو دے گئے تھے۔ جو انگوٹھی آپ ہمیشہ پہنتے تھے، وہ مولانا ہی کی عطا کردہ تھی۔ یہ آپ کے ہاتھ میں اخیر وقت تک رہی۔ آپ کا ارادہ موجودہ زمانے کی بے روزگاری دیکھ کر طلبا کے لیے شعبہ صنعت کھولنے کا تھا۔ جس بیماری میں آپ کا انتقال ہوا، اس میں آپ نے ایک مرتبہ یہ فرمایا تھا کہ ان شاء اﷲ مدرسے میں فاضل کا شعبہ قائم کریں گے۔‘‘ میں یہ سن کر بہت خوش ہوا۔‘‘[2] 6 شیخ عطاء الرحمن کی وفات پر علامہ خلیل عرب یمنی نے اشعار میں تعزیت کی ہے، اس کے چند ابیات ملاحظہ ہوں : عطاء رحمن قد لاقیت مغفرۃ من غافر ساتر رب لہ المنن
Flag Counter