Maktaba Wahhabi

45 - 335
سے باخبر مستند علماے کرام اور دیگر علوم و فنون کے ماہرین نے بے حد سراہا اور اپنے معاینوں میں انھیں بڑی فراخ دلی سے خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ اس خانوادے نے بڑی دلچسپی اور ہمت سے اسے قائم کیا اور مکمل ستائیس سال تک اس گلشنِ علم و فضل کی ایسی باغبانی کی کہ اس کے ’’قال اﷲ و قال الرسول‘‘ کی عطر بیزیوں نے فضاے برصغیر کو معطر کر دیا، پھر تقدیرِ الٰہی کہ تقسیمِ ہند کے نتیجے میں یہ خانوادہ روح فرسا مظالم اور ہمت شکن حالات کی تاب نہ لاکر سوئے کراچی ہجرت کرنے پر مجبور ہوگیا: رخصت اے بزمِ جہاں سوئے وطن جاتا ہوں میں آہ! اس آباد ویرانے میں گھبراتا ہوں میں مدرسے کے کتب خانے کو بہ حفاظت ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘‘ منتقل کر دیا گیا، (با خبر ذرائع کے مطابق اس کی وہاں کما حقہ قدر دانی نہ ہوئی) لیکن مدرسے کی بلڈنگ، جو ذاتی ملکیت تھی، مالکان کی ہجرت کے بعد قانوناً وہ حکومت کی تحویل میں چلی گئی۔ کشمیری گیٹ پر مدرسے کے لیے وقف چند دکانوں کا وقف نامہ اس کو حکومت سے آزاد کرانے میں معاون ضرور ثابت ہوا (کیونکہ موقف علیہ قانونی طور پر وقف کے حکم میں ہوتا ہے) لیکن دہلی کے سربرآوردہ افرادِ جماعت کی غفلت سے اس پر قبضہ نہ ہو سکا۔ آج اس میں دہلی اسٹیٹ کے اس وقت کے وزیرِ تعلیم جناب شفیق الرحمن قدوائی کے نام پر ’’شفیق میموریل انٹر کالج‘‘ قائم ہے اور یہ عمارت گورنمنٹ آف دہلی کی کسٹڈی میں ہے۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! ان حقائق کی روشنی میں یہ بحث کہ اگر مدرسہ ذاتی ملکیت کے بجائے وقف کی جائداد ہوتا تو یہ نوبت نہ پیش آتی، موشگافی سے زیادہ کچھ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس حادثے
Flag Counter