Maktaba Wahhabi

44 - 335
جس میں داخلہ صلاحیت و قابلیت کا غماز اور اس سے فراغت علم و فضل اور ثقاہت و اعتماد کے اعلی مقام پر فائز ہونے کی علامت بن گئی تھی۔ مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی اس مدرسے، اس کے ذمے داران، اساتذہ کرام اور فارغین کے بارے میں راقم الحروف کی یہ رائے اس کی کسی خوش اعتقادی کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ برصغیر کے علماے افاضل، ادباے عظام، ماہرینِ تعلیم اور صفِ اول کے سیاست دانوں کی شہادت پر مبنی ہے: أولئک آبائي فجئني بمثلھم ذا جمعتنا یا جریر المجامع اس ادارے کے اکثر و بیشتر فارغین (یا کم از کم مستفیدین) آسمانِ علم و فضل کے آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے اور جہاں بھی رہے، عالمانہ شان و فاضلانہ روش ان کی شناخت رہی۔ وہ اپنے ماحول میں دعوت و تبلیغ اور افتا و تدریس وغیرہ امور میں امتیازی شان کے حامل اور ﴿یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ﴾ کے مصداق رہے: ایں سعادت بزور بازو نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ بانیانِ مدارس کی نیک نیتی، اخلاص و للہیت اور تقوی و پرہیز گاری کا اثر ان کے اداروں پر پڑتا ہے۔ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَاتِ۔ اس ادارے کے بانی شیخ عبدالرحمن رحمہ اللہ (وفات: ۱۹۲۲ء)، ان کے جانشین برادر خورد شیخ عطاء الرحمن رحمہ اللہ (وفات: ۱۹۳۸ء) اور پھر ادارے کی تاریخ کے آخری دن تک ذمے دار حاجی عبدالوہاب بن شیخ عطاء الرحمن رحمہ اللہ کی خدمات کو مدرسے کے حالات
Flag Counter