Maktaba Wahhabi

325 - 335
جو نقشہ آج سے پون صدی قبل یعنی ۱۹۳۸ء میں کھینچا گیا تھا، اسے ایک بار پھر ہدیۂ قارئین کر دیا جائے تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اس طویل عرصے کے بعد بھی مدرسے کی عمارت اور اس کے اطراف و جوانب بڑی حد تک اپنی اصل حالت پر باقی ہیں ۔ ع یہ سب باقی ہے تو باقی نہیں ہے مولانا محمد صاحب جوناگڈھی (متوفی ۱۹۴۱ء) مدرسے کی عمارت کا تعارف کراتے ہوئے اپنے پندرہ روزہ رسالہ ’’اخبارِ محمدی‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’مدرسے کا رقبہ آٹھ نو سو گز ہے، ایک وسیع اور شان دار بلڈنگ ہے، جس میں طلبا کی رہایش کے لیے ۳۵ کشادہ اور ہوا دار کمرے ہیں ، درس و تدریس کے لیے ان سے وسیع تر آٹھ کمرے اور ہیں ، جن میں برقی روشنی اور بجلی کے پنکھوں کا انتظام ہے، مدرسے کے جنوبی حصے میں بڑا ہال (دار التذکیر) ہے، جس میں سالانہ امتحان اور دیگر خاص جلسے منعقد کیے جاتے ہیں ۔ ایک باورچی خانہ بھی علاحدہ ہے۔ عمارت کے بالائی حصے میں ایک شان دار کتب خانے کی عمارت ہے، جس میں عربی اردو کی ہزاروں کتابیں موجود ہیں ۔ مدرسے کے مغربی جانب ایک کشادہ شان دار مسجد ہے۔ مدرسے اور مسجد کے درمیان طلبا کی ورزش کے لیے ایک سبزہ زار بنا ہوا ہے، جس کے چاروں طرف پختہ دیوار ہے، مدرسے کا صحن مختلف قسم کے مفید پھول و پھل کے درختوں اور پودوں سے آراستہ و پیراستہ رہتا ہے، جو ایک دل فریب باغیچہ سے کم نہیں ہے۔ مدرسے کا فوٹو بھی ’’محدث‘‘ کے سال نامہ میں چھپ چکا ہے۔ اس کی تعمیر پر ایک لاکھ روپیہ خرچ ہوا ہوگا۔ ایک ہزار روپے کے لگ بھگ ماہانہ خرچ ہے۔‘‘ [1] ورق تمام ہوا مدح ابھی باقی ہے سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے ٭٭٭
Flag Counter