Maktaba Wahhabi

324 - 335
وجہ سے یہ حصہ ابھی اپنی قدیم حالت میں باقی ہے۔ مدرسے کی لائبریری کے بارے میں اس وقت ہم استفسار کرنا بھول گئے۔ سفر سے واپسی کے بعد والد محترم سے ہم نے اس سلسلے میں پوچھا تو آپ نے بتایا کہ لائبریری مغربی سمت میں مدرسے کی چھت پر بنائی گئی تھی، لیکن ہمیں عمارت کی چھت پر کوئی کمرہ یا تعمیر نظر نہیں آئی، لگتا ہے کہ کہنگی اور بوسیدگی کی وجہ سے اسے بعد میں ہٹا دیا گیا۔ ہم لوگ اپنی مہم مکمل کرچکے تو پرنسپل صاحب نے اپنے آفس میں بٹھا کر ہم لوگوں کی تواضع کی انھوں نے بڑے والہانہ انداز میں بتایا کہ میں اس عمارت کی تاریخ جاننا چاہتا ہوں ، مگر آج تک کہیں سے مجھے کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ میں نے انھیں خوش خبری سنائی کہ مدرسے کی تاریخ مرتب کی جاچکی ہے اور ایک مجلے میں شائع بھی ہوچکی ہے، ان شاء اللہ، بہت جلد کتابی شکل میں آپ کے ہاتھوں میں ہوگی۔ انھوں نے بالمشافہہ بھی کچھ جاننا چاہا تو میں نے انھیں سن تاسیس، موسسین، مدرسے کے ناظم تعلیمات، بعض اساتذہ وغیرہ کے بارے میں بتایا۔ مدرسے کے خاتمے کی بھی مختصراً روداد سنائی اور مولانا نذیر احمد صاحب املوی رحمہ اللہ کے ساتھ اس وقت جو حالات پیش آئے تھے، ان کا بھی تذکرہ کیا۔ موصوف نے ان باتوں کو ایک کاغذ میں نوٹ کر لیا اور بار بار اصرار کرتے رہے کہ مدرسے کی تاریخ منظر عام پر آتے ہی ہمیں اس کی ایک کاپی ضرور بھیجیں ۔ موصوف نے یہ بھی بتایا کہ اس زمین کا کوئی کاغذ اسکول کے پاس نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہمیں کافی دقتیں پیش آرہی ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ یہ قدیم عمارت بہت مخدوش ہو چکی ہے اور کسی طرح اصلاح و مرمت کرکے کام چلایا جا رہا ہے، بہت جلد اسے منہدم کرکے نئی عمارت بنانے کے لیے پلاننگ کی جا رہی ہے۔ مدرسے کے مشاہدے کی اس طویل و لذیذ حکایت کے اختتام سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولانا محمد صاحب جوناگڈھی کے قلم سے مدرسے کی عمارت کا
Flag Counter