Maktaba Wahhabi

310 - 335
حافظ حمید اﷲ دہلوی رحمہ اللہ کا رول بھی کافی اہم تھا، اس تعلق سے بعض تفصیلات مولانا نذیر احمد رحمانی کے تذکرے میں گزر چکی ہیں ۔ مدرسہ بند کیے جانے اور اس کی عمارت کے حکومتی تحویل میں چلے جانے کے واقعے کو اربابِ قلم نے اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے، جسے آگے ان ہی حضرات کے الفاظ میں نقل کر دیا جائے گا۔ قارئین دیکھیں گے کہ بعض حضرات نے مدرسے کے شخصی ہونے، اس کو وقف نہ کیے جانے یا جماعتی تحویل میں نہ دیے جانے پر حیرت و افسوس کا اظہار کیا ہے اور اسی چیز کو مدرسے کے ضیاع کا سبب گردانا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مدارس دونوں طرح کے پائے جاتے رہے ہیں ، شخصی بھی اور جماعتی یا عوامی بھی۔ دونوں طرح کے نظام کے فوائد بھی ہیں ، نقصانات بھی، لیکن واقعات بتلاتے ہیں اور تجربات شاہد ہیں کہ شخصی نظام میں اگر انسان مخلص ہے تو عوام کی بے جا مداخلت کے بغیر یک سوئی کے ساتھ بہتر ڈھنگ سے ادارے کو چلاتا ہے۔ دار الحدیث رحمانیہ کی روشن تاریخ قلم بند کرنے کے بعد راقم اسی نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس ادارے کو ممتاز کرنے اور تعلیم و تربیت کے باب میں مثال قائم کرنے کے پیچھے جو اسباب و عوامل کار فرما رہے ہیں ، ان میں سرفہرست ہر کس و ناکس کی مداخلت سے اس کا محفوظ رہنا اور صرف ایک ذمے دار کے ہاتھ میں اس کی باگ ڈور کا ہونا تھا، دوسرے عوامل کا نمبر اس کے بعد ہی آئے گا۔ رہا معاملہ اس کے وقف نہ کیے جانے کا تو وہ بھی مذکورہ سبب ہی سے متفرع ہوتا ہے۔ کسی جماعت یا تنظیم کے نام وقف کرنے کا مطلب اس کی شخصی حیثیت کا خاتمہ تھا، جو بانیان کومنظور نہ تھا۔ اب یہ کہ وقف نہ رہنے کی وجہ سے وہ حکومت کے ہاتھ میں چلا گیا تو مستقبل کی بات کون جانتا ہے؟ اگر ایسا ہی رہتا تو کسی بھی فرد یا جماعت کو کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا، اس لیے ہمیں اب ان سب بحثوں میں نہ پڑ کر
Flag Counter