Maktaba Wahhabi

309 - 335
میں ستائیسواں تعلیمی سال کا اختتام ہوا۔ اس سال مدرسے سے فارغ ہونے والے خوش نصیبوں میں مولانا عبد الحکیم مجاز اعظمی مؤی رحمہ اللہ اور ان کے رفقاے درس تھے۔ شوال میں اٹھائیسواں تعلیمی سال کا آغاز تھا۔ مدرسے کے ذمے دار اعلی مولانا نذیر احمد صاحب املوی رحمہ اللہ تشریف لاچکے تھے۔ شیخ الحدیث علامہ عبید اﷲ رحمانی رحمہ اللہ اواخر شعبان میں شیخ خلیل عرب رحمہ اللہ کے ساتھ ایک جماعتی مقصد کو لے کر سعودی عرب کے سفر پر تھے، واپسی اوائل نومبر میں ہوئی۔ مولانا نذیر احمد صاحب کے علاوہ دیگر اساتذہ ابھی دہلی نہیں پہنچے تھے۔ ہند و مسلم فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو چکا تھا، جو دن بہ دن خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ ۶؍ ستمبر ۱۹۴۷ء کو مدرسے پر حملہ ہوا۔ مولانا نذیر احمد صاحب گرفتار کیے گئے اور قید و بند کی طویل مشقتوں کے بعد آپ کو رہائی نصیب ہوئی، جس کی تفصیل بڑی دردناک اور تکلیف دہ ہے، اس کا تذکرہ سابقہ صفحات میں ہو چکا ہے۔[1] مدرسے کے مہتمم شیخ عبد الوہاب صاحب کو برابر دھمکیاں مل رہی تھیں ۔ دہلی کے ناگفتہ بہ حالات کے پیشِ نظر آپ اپنے پورے خاندان سمیت کراچی ہجرت کر گئے۔ مدرسے کی مملوکہ اشیا میں سب سے قیمتی اس کا کتب خانہ تھا، آپ نے اسے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے حوالے کر دیا، چنانچہ تمام کتابیں بہ حفاظت جامعہ منتقل ہوگئیں ۔ مدرسہ چوں کہ ابتدا ہی سے شخصی تھا، جس کی کوئی کمیٹی تھی، نہ جمعیت و جماعت کے تابع تھا، اس لیے مدرسے کی عمارت کی حیثیت بھی قانونی طور پر شخصی ہی کی تھی، جس کے مالکان کی ہجرت کے بعد حکومت کا اس پر قبضہ ہوگیا۔ شیخ عبد الوہاب دہلی سے جاتے وقت اپنے منشی عزیز احمد کو مولانا املوی وغیرہ کے مقدمے کی پیروی پر مامور کر گئے تھے۔ مولانا کی رہائی کے سلسلے میں حاتمِ جماعت
Flag Counter