Maktaba Wahhabi

273 - 335
نے ایک نئی سنت کی بنیاد ڈال دی۔ ساری ضیافت کا خرچ اپنے ذمے لے لیا اور طلبا پر کچھ بھی بوجھ نہ ڈالا، اس کے نتیجے میں دوسرے مدرسین کے ساتھ تنافس کی شکل پیدا ہوگئی، اس کش مکش میں یہ سال ختم ہوا اور مولانا محمد سورتی مرحوم کو جواب دے دیا گیا، جس سے ان طلبا کو بڑا افسوس اور صدمہ ہوا، جو حدیث کے ساتھ ساتھ عربی ادب کے بھی شائق تھے۔ ’’ہمارے درسِ نظامی میں سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ معقولات پر تو بہت زور دیا جاتا ہے، لیکن تفسیر، ادب، تاریخ، جغرافیہ، حساب اور جدید مفید علوم کے بارے میں کوئی خاص اہتمام نہیں کیا جاتا۔ بہرحال سال کے آخری حصے میں طلبا کی شکایت پر مہتمم صاحب نے صحیحین کے اسباق دوبارہ مولانا احمد اﷲ صاحب کے حوالے کر دیے اور اس طرح یہ قضیہ نامرضیہ ظاہری طور پر ختم ہوا۔ ’’مولانا مرحوم کی عربی زبان دانی کا ایک واقعہ یہ سننے میں آیا ہے کہ جب وہ حج کے لیے تشریف لے گئے تو انھوں نے حرم میں عربی زبان میں فصیح و بلیغ انداز میں توحید پر تقریریں کیں ۔ لوگ حیران تھے کہ کس ملک کا انسان ہے کہ اتنی اچھی عربی بول رہا ہے۔ ایک مرتبہ تقریر کے بعد ایک عرب عالم نے ان سے دریافت کیا: أنت من الیمن أو من الحجاز أو من أي بلد أنت؟ ’’یعنی آپ کا مسکن کہاں ہے؟ آپ یمنی ہیں یا حجازی ہیں ؟ یا کوئی دوسرا علاقہ ہے آپ کا؟‘‘[1] ٭٭٭
Flag Counter