Maktaba Wahhabi

272 - 335
صحیحین پڑھنے والے تھے، وہ مطمئن نہ تھے اور اس طرح ایک عجیب سی کش مکش پیدا ہوگئی۔ ’’ظاہر بات ہے کہ جو طلبا صحیحین مولانا احمد اﷲ صاحب سے پڑھتے آرہے تھے، جو تیس سال سے حدیث پڑھا رہے تھے، ان کے مقابلے میں مولانا سورتی کی تدریس تسلی بخش نہیں ہوسکتی تھی۔ افسوس ہے کہ کسی نے مہتمم صاحب کو یہ نہیں بتایا کہ ’’لکل فن رجال‘‘ کے قاعدے کے مطابق مولانا سورتی کو عربی ادب اور زیادہ سے زیادہ کسی تفسیر کی تدریس کے لیے خاص کر لیا جائے اور اگر کوئی حدیث کی کتاب دی جائے تو صحیحین کے علاوہ صرف ایک کتاب ان کے سپرد کی جائے، لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ ’’مولانا سورتی مرحوم نے اپنے تقرر کے بعد کتب خانے سے صحیحین کی تمام شروح مستعار حاصل کرلیں ، لیکن ظاہر ہے کہ بڑی عمر میں ان شروح کا مطالعہ کرنا اور اس کے لیے کافی وقت نکالنا مشکل تھا۔ ’’مولانا سورتی مرحوم عربوں کی طرح فیاضی میں بے مثال تھے، اسی لیے جو استاذ یا شاگرد اُن کے پاس جاتا تو وہ اس کی خوب آؤ بھگت کرتے۔ جب ہماری جماعت نے جامع ترمذی ختم کی اور سب سے پہلے یہ موقع ہم ہی کو ملا کہ مولانا موصوف نے ہم سب طلبا کی ترمذی ختم ہونے کی خوشی میں شان دار دعوت کی اور سب کچھ اپنے پاس سے خرچ کیا، اس سے پہلے جب کوئی حدیث یا تفسیر کی کتاب ختم ہوتی تو طلبا چندہ جمع کرکے ضیافت کا اہتمام کرتے تھے۔ اساتذہ کی مالی شرکت اس میں نہیں ہوتی تھی، الا یہ کہ کوئی استاذ خود ہی اپنا حصہ ڈال دے، لیکن مولانا سورتی مرحوم
Flag Counter