Maktaba Wahhabi

255 - 335
کے ساتھ اسے الوداع کہا اور گھر جانے کے لیے روانہ ہوئے۔‘‘[1] حکیم محمد اسرائیل سلفی نے اپنی کتاب ’’تراجم علماے اہل حدیث میوات‘‘ میں ایک جگہ اخبار اہلِ حدیث سے مولانا نذیر احمدصاحب رحمانی کے تحریر کردہ ایک مضمون کا اقتباس نقل کیا ہے، جسے یہاں درج کیا جارہا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں : ’’پولیس نے ہم پر تین قسم کے مقدمات دائر کیے تھے۔ ایک کیس کے متعلق تو ہمیں جیل میں بتایا گیا تھا کہ یہ خون کی ایسی شدید دفعہ ہے کہ اس میں ضمانت بھی نہیں ہوسکتی، لیکن اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ کامل ایک ماہ کے بعد جب عدالت میں ہماری پیشی ہوئی تو الزامات کے عدمِ ثبوت کی بنا پر پہلی ہی پیشی پر مجسٹریٹ نے ہمیں بَری کر دیا۔ حاجی عبد الوہاب صاحب مہتمم مدرسہ رحمانیہ خود تو مع متعلقین پاکستان چلے گئے، مگر مقدمات کی پیروی کے لیے ان کے منشی عزیز احمد کچہری میں موجودتھے۔ وہیں کچہری میں ہمیں معلوم ہوا کہ ہم لوگوں کو آج سے چار روز پیشتر حافظ حمید اﷲ صاحب کی چالیس ہزار روپے کی ضمانت پر رہا ہوجانا چاہیے تھا، یہ شِشن جج کے یہاں سے بڑی کوششوں کے بعد منظور کرائی جاسکی ہے، ضمانتی کاغذات اور چالانی فارم پر جو پتے درج تھے، ان کے تھوڑے سے اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جیلر نے منظور نہیں کیا۔ اس وقت دہلی کے حالات اتنے خطرناک تھے کہ آج ان کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اس وقت میں ایسے مسلمان کا ساتھی بن جانا، جس پر چھے انسانوں کے قتل کا الزام ہو، یہ واقعہ جہاں ہمارے ساتھ حافظ صاحب کی پرخلوص محبت اور ہمدردی پر دلالت کرتا ہے، وہاں ان کی زبردست جراَت ایمانی
Flag Counter