Maktaba Wahhabi

251 - 335
باہر رہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی اور مدرس کو اتنے طویل عرصے تک اس ادارے کی خدمت کا موقع ملا ہوگا۔ ۱۹۳۸ء میں جب مہتمم مدرسہ شیخ عطاء الرحمن کا انتقال ہو گیا تو مذکورہ بالا مصروفیات کے ساتھ بہت سارے انتظامی امور بھی آپ اور حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے کاندھوں پر آگئے، اس لیے کہ شیخ عطاء الرحمن کے صاحب زادے شیخ عبد الوہاب مدرسے کے لیے اتنا وقت نہیں دے پاتے تھے، جتنا ان کے والد محترم دیتے تھے، ویسے بھی مدرسے میں مولانا کی حیثیت صدر مدرس جیسی تھی، اگرچہ رحمانیہ میں صدر مدرس کا کوئی عہدہ نہ تھا، مگر طلبا کی نگرانی، امتحانات وغیرہ سے متعلق امور ، داخلے کے مسائل وغیرہ وغیرہ سب مولانا ہی دیکھتے تھے۔ رمضان اور عید کی چھٹیوں میں جب مولانا اپنے گھر ہوتے تو قرب وجوار کے طلبا، جو رحمانیہ میں داخلے کے امیدوار ہوتے، مولانا کے پاس آتے اور ان کی جانچ پڑتال کرکے آپ ان کے داخلے سے متعلق فیصلہ فرما دیتے۔ یہ اختیار مولانا کو مہتمم صاحب کی طرف سے دیا گیا تھا۔ ۱۹۴۷ء کے ہنگامے میں مدرسے کی شہادت کے وقت بھی مولانا مدرسے ہی میں مقیم تھے۔ آپ مع چند دیگر اشخاص گرفتار ہوئے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ، اس کی داستان بڑی خوں چکاں اور دلدوز ہے، اس کی تفصیل مولانا ادریس آزاد رحمانی رحمہ اللہ کی درج ذیل تحریر میں ملاحظہ ہو: ’’اگست ۱۹۴۷ء میں جب ملک تقسیم ہوا اور اس کے نتیجے میں دہلی کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی تو اس زمانے میں مولانا دہلی ہی میں تھے۔ مدرسے کا اٹھائیسواں سال شروع تھا۔ تعطیل کلاں کے بعد آپ مدرسے پہنچ چکے تھے، کیوں کہ طلبا کے داخلے کا کام آپ ہی کے ذمے تھا۔ دوسرے مدرسین ابھی نہیں پہنچے تھے۔ ستمبر کے شروع ہی میں مختلف محلوں
Flag Counter