Maktaba Wahhabi

191 - 335
مولانا محمد خالد فیضی اپنے مضمون ’’علم دوستی و علما شناسی: دار الحدیث رحمانیہ کے تناظر میں ‘‘ کے اندر ایک جگہ اپنے استاذ مولانا قاری عبدالسبحان مؤی کے حوالے سے درج ذیل واقعہ ذکر کرتے ہیں : ’’دار الحدیث رحمانیہ دہلی میں ہر طالب علم کو روزانہ ایک چھٹانک گھی دیا جاتا تھا۔ ایک بار متولی صاحب کو منشی جی نے کہا کہ شیخ صاحب گھی بازار میں مہنگا ہوگیا ہے۔ آپ نے پوچھا: پھر؟ منشی جی نے کہا: میری رائے ہے کہ طلبا کو دیے جانے والے گھی کی مقدار کم کر دی جائے، تاکہ بجٹ نہ بڑھے۔ شیخ صاحب سن کر تھوڑی دیر خاموش رہے، پھر سوال کیا: گھی کیا بھاؤ بک رہا ہے؟ بھاؤ بتایا گیا، نہایت برجستگی سے شیخ صاحب نے حکم صادر فرمایا کہ آج سے فی کس دو چھٹانک گھی دو، مبادا قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ یہ کہہ کر میرا مواخذہ کرلے کہ تو نے بھاؤ بڑھنے کی وجہ سے دستور سابق کو برقرار نہ رکھا، کیوں کہ بازار کا نرخ تیری دولت کے حق میں بہتر نہ تھا۔ اگر میری خوش نودی مطلوب ہوتی تو مقدار زیادہ کر دیتا۔ رقت آمیز لہجے میں منشی جی سے کہا کہ آج سے دو چھٹانک فی کس گھی جاری کر دیا جائے۔ گھی اگر مہنگا ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمانوں کا بھاؤ گر نہیں گیا ہے۔‘‘[1] بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، اسی مضمون کے آخر میں مہتمم صاحب کے بارے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے، اسے بھی ملاحظہ فرمائیں : ’’یہ ہیں امیر کبیر حضرت شیخ عطاء الرحمن رحمہ اللہ متولی ’’دار الحدیث رحمانیہ دہلی‘‘ جنھوں نے اپنی دولت اشاعتِ علمِ دین کے لیے وقف فرمائی تھی۔ آپ کی ایک قابلِ تحسین و تقلید عادت یہ تھی کہ طلبا کے کھانے کے بعد مطعم پہنچتے۔ پیشانی پہ چمک، آنکھوں میں اشتیاق اور ہاتھوں میں پلیٹ
Flag Counter