جب عربوں کو ہوش آیا تو انہوں نے شام میں امیر فیصل بن حسین کے تحت ایک وطنی حکومت قائم کرلی۔ ادھر فرانس اور برطانیہ میں معاہدہ سائیکس پیکو کے باجود تقسیم غنائم میں تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ برطانیہ دراصل اپنے طے شدہ حصے سے بہت زیادہ ہوس کرنے لگ گیا تھا۔ پھر جب انہوں نے دیکھا کہ ان کا تنازعہ طویل ہورہا ہے۔ اور اس ڈیڑھ سال کے عرصہ میں وطنی حکومت زور پکڑ رہی تھی تو پھر آپس میں متحد ہوگئے اور1920ء میں بمقام سان ریمو ایک نیا سمجھوتا کرکے ’’نئی بندر بانٹ‘‘ پر اتفاق کرلیا۔ اور دنیا کو دھوکہ دینے کی غرض سے یہ ظاہر کیا کہ یہ تینوں ممالک ان کو اقوام متحدہ کی طرف سے انتداباً دئیے گئے ہیں۔ حالانکہ نہ جمعیت اقوام کو اس بات کا کوئی حق پہنچتا تھا، نہ اس وقت تک جمعیت اقوام کا کوئی اجتماع ہوا تھا۔ اور نہ ہی انتداب کے متعلق کوئی فیصلہ کیا گیا تھا۔ بلکہ یہ مراحل پورے چھ ماہ بعد نہایت مکر وفریب سے طے کیے گئے تھے۔ دوسری طرف اہل عراق کو تلوار کے زور سے کچلا گیا۔ جو برطانوی انتداب کا نام سنتے ہی بھڑک اٹھے تھے۔جس زمین پر ’’ظالم ‘‘ ترکوں نے ۱۴ ہزار سے زیادہ فوج کبھی نہ رکھی تھی۔ اس پر ’’نجات دہندہ ‘‘ برطانیہ نے ۹۰ ہزار فوج مسلط کردی۔ اور جس زمین پر ’’ظالم‘‘ ترکوں نے سالانہ دو سو سے زیادہ عربوں کو کبھی قتل نہیں کیا تھا ’’وہاں حق پرست‘‘ برطانیہ نے ایک ہی موسم گرما میں دس ہزار عربوں کو قتل کر ڈالا۔ اب برطانیہ نے اپنے ظاہری وعدوں کی حرمت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ چال چلی کہ وہاں براہ راست حکومت کی بجائے ایسی نام نہاد قومی حکومت قائم کرلی جو برطانیہ کی خواہش کے تابع اور اس کے مفاد ات کی محافظ ہو۔ چنانچہ اہل عراق کی ناراضگی کو دور کرنے کے لیے ۲۳/اگست 1922ء کو شاہ فیصل کی تخت نشینی کا اعلان کرادیا گیا اور اس کی قیمت یہ وصول کی کہ اسے ایک معاہدہ پر مجبور کیا گیا جس کی رُو سے عراق بالواسطہ مکمل طور پر برطانیہ کے اثرو اقتدار کے تحت آجاتا تھا۔ اور عراقی پارلیمنٹ سے اس معاہدہ کی تصدیق وتوثیق کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ آدھی رات کو یہ مسودہ مجلس وطنی میں پیش کیا گیا۔ اور ارکان مجلس کو بستروں سے اُٹھا اٹھا کر پولیس کی معرفت بلوایا گیا اور جبراً ان سے ووٹ لے کر اعلان کیا گیا عراقی پارلیمنٹ نے معاہدہ کی توثیق کردی ہے۔ پھر ان خفیہ معاہدات کا حلقہ صرف عربوں تک ہی محدود نہ تھا۔ اتحادی آپس میں بھی وقتاً |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |