Maktaba Wahhabi

75 - 186
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ستونوں کے درمیان ایک لمبی رسی بندھی ہوئی دیکھی تو پوچھا : یہ رسی کیسی ہے؟ گھر والوں نے جواب دیا کہ یہ رسی ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے باندھی ہے۔ جب وہ قیام کرتے ہوئے تھک جاتی ہیں تو اسے پکڑ کر سہارا لیتی ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا ، حُلُّوہُ، لِیُصلِّ أَحَدُکُمْ نَشَاطَہُ، فَاِذَا فَتَرَ فلْیَقعُدْ)) [1] ’’نہیں! اسے کھول دو، تم میں کوئی بندہ اس وقت تک نماز پڑھے جب تک وہ چستی محسوس کرے، جب وہ تھک جا ئے تو اسے بیٹھ جانا چاہیے۔ ‘‘ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ اس حدیث میں عبادت میں میانہ روی اختیار کرنے پر ابھارا گیا ہے اور اس میں تشدد اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ‘‘ شیطان کے راستے، افراط و تفریط: سلف صالحین فرماتے تھے: اللہ تعالیٰ نے جو بھی حکم نازل کیا ہے شیطان کے لیے اس میں دو قسم کے راستے ہیں۔ یا تو اس میں کمی کروائے گا اور یا حد سے بڑھا ئے گا یعنی افراط کروائے گا، اور اسے کوئی پروا ہ نہیں ہوتی کہ وہ کمی یا زیادتی میں انسان پر غلبہ پا رہا ہے۔ اس لیے شیطان کے پاس اولاد آدم پر قابو پانے کے لیے بہت سے دروازے اور طریقے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا)(بنی اسرائیل:۶۴) ’’اور ان میں سے جس کو تو اپنی آواز کے ساتھ بہکا سکے بہکا لے اور اپنے سوار اور اپنے پیادے ان پر چڑھا کر لے آ۔ا ور اموال ، اولاد میں ان کا حصہ دار بن
Flag Counter