Maktaba Wahhabi

123 - 186
چلا کہ وہ لوگ جو زندگی کے روشن پہلو کو مدنظر رکھتے ہیں اور ان کی زندگی میں امیدیں بھی ہوتی ہیں، ان لوگوں کے مقابلے میں جو بدشگونی لیتے رہتے ہیں پچپن فی صد کم امراض قلب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ایرک نے اس تحقیق کے بعد جو نتیجہ نکالا وہ یہ تھا کہ بڑی عمر کے لوگوں کو امراض قلب سے بچنے کے لیے ہر چیز کے روشن پہلو کو مدنظر رکھنا چاہیے اور تکلیف و مصیبت کے وقت اچھا شگون لینا چاہیے۔ ڈاکٹر ایرک نے اس تحقیق کی ضرورت اس لیے محسوس کی کہ ان کے سامنے بہت سی رپورٹیں آئیں جن میں بتایا گیا تھا کہ دوسرے امراض کے مقابلے میں دل کے امراض میں مبتلا ہونے والے لوگوں کی تعداد کم ہے۔ اچھا شگون لینے والے کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ اس کا مقصدعام لوگوں کے تصرف کے بارے میں اچھا شگون لینا ہوتا ہے کہ جس سے وہ لوگوں کو زندگی کے خوشگوار راستے پر گامزن کر سکے۔ اس لحاظ سے اس پر عمل کرنے والا، لوگوں کے معاملات کو حل کرنے والا اور ایک اثر رکھنے والا ہوناچاہیے۔ وہ آدمی جس کا کام اس کی تحقیق میں آڑے آرہا ہو وہ اس کے اثر انداز ہونے میں رکاوٹ بنتا ہے کیوں کہ اس کی پیروی کونے والے لوگوں کے دلوں کی اچھی یا بری حالت اس کے شگون پر منحصر ہے۔ کیا اچھا شگون اثر ڈالتا ہے؟ ۱۹۸۵ء میں ایک رپورٹ منظر عام پر آئی جس میں ۵۴۵ آدمیوں پر تحقیق کی گئی تھی۔ ان میں سے ستر فی صد آدمی آنے والے ۱۵ سالوں کے دوران فوت ہوگئے جن میں سے نصف کی موت کا سبب دل کی بیماریاں تھیں۔ تحقیق کاروں نے نتیجہ نکالا کہ اچھا شگون نہ لینے سے آدمی کے بیماریوں کے شکار ہونے کی شرح بڑھ جاتی ہے۔جب کہ جو لوگ واقعات سے اچھا شگون لینے کے عادی ہوتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں کا شکار ہونے کی شرح دوسرے لوگوں کی نسبت پچپن فی صد کم ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ آئندہ سالوں میں علم فزیالوجی کے لیے اچھے شگون کی تاثیر کا مطالعہ کرنا ممکن ہو جائے گا کہ جس طرح وراثتی چیز یا جسم کے
Flag Counter