Maktaba Wahhabi

60 - 186
لگ جا ئے اور بندہ جانتا نہ ہو کہ وہ کیا ہے تو اس پر ضروری نہیں کہ وہ پہچان کرنے کے لیے اس چیز کو سونگھتا پھرے۔ اما م صاحب سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ والے مذکور بالا واقعے سے استدلال لیتے تھے۔ اس لیے اگر آپ پر کوئی ایسی چیز گر جا ئے کہ جس کے بارے میں آپ جانتے نہ ہوں کہ وہ پاک ہے یا نجس ، تو آپ اس کے بارے میں سوال نہ کریں۔ اگر آپ سوال کرلیں تو دوسرے بندے پر آپ کو جواب دینا لازم نہیں ہے۔ لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ اگر پرنالے سے پانی کسی پر گر جا ئے اور وہ جانتا نہ ہو کہ یہ پانی پاک ہے یا نجس تو وہ غسل کر کے اپنے کپڑے تبدیل کرتا ہے یا پوچھنے کے لیے نکل پڑتا ہے۔ حالانکہ یہ ساری باتیں صرف وسوسہ ہی ہیں۔ ایک دفعہ امیر المؤمنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کسی سفر میں تھے اور آپ کے ساتھ جناب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ چلتے چلتے ایک تالاب پر پہنچے تو عمروبن العاص رضی اللہ عنہ اس تالاب کے مالک سے پوچھنے لگے : کیا تمہارے تالاب پر درندے بھی پانی پینے کے لیے آتے ہیں؟ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تالا ب کے مالک کو جواب دینے سے روک دیا اور فرمایاکہ ہم درندوں کے بعد پانی لیتے ہیں اور درندے بھی ہمارے بعد پانی پیتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تالابوں اور کھلے جوہڑوں سے وضو کر لیتے تھے اور نجاست یا کتوں کے آنے جانے کے بارے میں سوال نہیں کرتے تھے۔ امام احمد رحمہ اللہ سے اس رسی کے بارے میں سوال کیا گیاجس پر نجس کپڑے ڈالے گئے پھر سورج کی گرمی نے اسے خشک کر دیا اور پھر اس پر پاک کپڑے ڈال دیے گئے ۔ تو آپ نے جواب دیاکہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ جوتے میں نماز پڑھنے کے بارے میں تنگی اور وسوسے: اس قسم کے وسوسے کے بارے میں بات کرنے سے پہلے میں چاہوں گا کہ ایک فائدہ نقل کردوں۔ وہ یہ کہ جب جوتے یا موزے کو کوئی گندگی لگ جائے تو وہ مٹی ملنے سے پاک ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter