Maktaba Wahhabi

82 - 186
اور قصد کر چکا ہوتا ہے۔ بلکہ دوسرے لوگ بھی احوال اور قرائن کی وجہ سے اس کی نیت اور ارادے کو جان چکے ہوتے ہیں۔ شیطان اس کے دل میں خیال ڈال دیتا ہے کہ اس نے نماز کی نیت نہیں کی۔ یا اس کے پیٹ سے کوئی چیز خارج ہو ئی ہے حالانکہ اس کے پیٹ سے کوئی چیز خارج نہیں ہوئی ہوتی۔ یہ سارے خیالات شیطان کی اطاعت اور اس کے وسوسہ کو قبول کرنے کا نتیجہ ہیں اوراس کی اطاعت اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے۔ وہ شیطان کی اطاعت قبول کرنے کی وجہ سے اپنے نفس کو سزا اور جسم کو تکلیف دیتا ہے۔ کبھی ٹھنڈے پانی میں غوطے لگا تا ہے اور کبھی ٹھنڈے پانی میں اپنی آنکھوں کھول کر ان میں پانی داخل کرتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی بینائی متا ثر ہو جاتی ہے۔ کبھی اپنا ستر کھول کر لوگوں کے سامنے آجاتا ہے ۔بچوں اور دیکھنے والوں کے مذاق اور ٹھٹھے کا نشانہ بنتا ہے۔ ایک دلچسپ واقعہ: یہاں ایک واقعہ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ ’’ابو الفرج بن الجوزی، ابو الوفا بن عقیل رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے ان سے سوال کیا : میں پانی میں بار بار ڈبکیاں لگاتا ہوں لیکن مجھے پھر بھی شک رہتا ہے کہ میرا غسل صحیح ہوا ہے یا نہیں؟ آپ کاا س بارے میں کیا خیال ہے ؟ شیخ نے اسے جواب دیا : جائو! تم سے نماز ساقط ہو گئی ۔ اس نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَـلَاثَۃٍ: اَلْمَجْنُوْنُ حَتّٰی یُفِیْقَ، وَالنَّائِمُ حَتّٰی یَسْتَیْقِظَ، وَالصَّبِيُّ حَتّٰی یَبْلُغَ)) [1] ’’تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیاہے۔ مجنون یہاں تک کہ صحیح ہو جا ئے اور سونے والا یہاں تک کہ بیدار ہو جائے اور بچہ یہاں تک کہ بالغ ہو جا ئے۔ ‘‘ اور جو آدمی بار بار پانی میں ڈبکی لگانے کے باوجود شک کرے کہ اس کا غسل ہوا ہے یا نہیں تو وہ مجنون ہے۔ ‘‘
Flag Counter