Maktaba Wahhabi

116 - 186
اختیارکرتے۔ اگر بائیں طرف کو اڑجاتا تو بدشگونی لیتے ہوئے اپنا سفر اور دوسری ضرویات کو ترک کر دیتے۔ شریعت نے اس بات کی نفی کی ہے اور ان کا موں سے روکا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان’’ لَا طِیَرَۃَ‘‘کا یہی مطلب ہے کہ یہ کام نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ جب کہ دوسری جگہ ’’الطِّیَرَۃُ شِرْکٌ‘کہہ کر یہ سمجھایا کہ جب کوئی اس بدشگونی کو مانتے ہوئے اس پر اعتقاد رکھے گا تو گویا اس نے شرک کیا۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک پرندہ چیختے ہوئے گزرا ۔ آپ نے فرمایاکہ اس پرندے کے پاس نہ خیر ہے اور نہ شر۔ اسی طرح عرب کے لوگ’ازلام‘ کے ساتھ بدشگونی لیا کرتے تھے۔ ’ازلام‘ جوئے کے تیر ہوتے تھے۔ ایک پر لکھا ہوتا تھا ’اِفْعَلْ‘اور ایک پر لکھا ہوتا ’لَا تَفْعَل‘ جب کسی کام کا ارادہ کرتے تھے تو قسمت معلوم کیا کرتے تھے۔ اگر اِفْعَلْ والا تیر نکل آتا تو کام کوبجالاتے۔ اور اگر لَاتَفْعَلْ کا تیر نکل آتا تو کام کو سر انجام نہ دیتے۔ کبھی لکیروں سے بدشگونی لیتے، کبھی قرعہ اندازی سے اور کبھی ستاروں سے۔ شریعت نے آکر ان تمام کاموں سے مسلمانوں کوروک دیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ تکَھَّنَ أَورَدَّہُ عَنْ سَفَر تَطَیُّرٌ فََلَیْسَ مِنَّا)) [1] ’’جس نے کہانت کی یا اسے بدشگونی نے سفر سے روک دیا تو وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ مسلمان اور بد شگونی: آپ کا یہ ہفتہ کیسا گزرے گا یا اس طرح کے دوسرے سلسلے جن میں برجوں کے لحاظ سے مستقبل کی خبریں بتائی گئی ہوتی ہیں ان سب سے شریعت آدمی کو منع کرتی ہے۔ اسی طرح لوگ فوت ہونے والے بچے کا نام نئے پیدا ہونے والے بچے کا نہیں رکھتے کیوں کہ وہ بدشگونی لیتے ہیں کہ وہی نام رکھنے سے یہ بچہ بھی فوت ہو جائے گا۔ حالانکہ یہ وہ
Flag Counter