Maktaba Wahhabi

114 - 186
اگرچہ اس کو استعمال کی قدرت نہ ہی رکھتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو گائے کی نشانیاں بتاتے ہوئے فرمایاتھاکہ وہ گائے دیکھنے والوں کو خوش کرتی ہو۔ یعنی جو بندہ اسے دیکھے وہ خوش ہوجائے اگرچہ گائے کی ملکیت نہ رکھتا ہو۔ التفاولکی مثال یوں سمجھیں کہ بیمار آدمی ہمیشہ تندرستی کی دعا سننا چاہتا ہے۔ اگر کوئی آدمی اس کے پاس آکر کہتا ہے ’’یَا سَالِمُ‘‘یعنی سلامتی والے تو وہ آدمی سمجھے گا کہ اسے بیماری سے سلامتی کی دعا دی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ اسے شفا دے دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی آدمی کو کسی علاقے کی طرف عامل بنا کر بھیجتے تو اس کا نام دریافت کرتے۔ اگر آپ کو اچھا لگتا تو آپ خوش ہوتے اور اگر نام آپ کو پسند نہ آتا تو ناپسندیدگی آپ کے چہرے سے ظاہر ہوجاتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ نام سن کر آپ خوش خبریاں سنایا کرتے تھے۔ صلح حدیبیہ والے دن صلح نامہ لکھنے کے لیے مشرکین کی طرف سے سہیل بن عمرو آیا تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:’’سُھِّلَ لَکُمْ مِنْ أََمْرِکُمْ‘‘یعنی معاملہ تمہارے لیے آسان کر دیا گیا۔ یعنی سہیل کے نام سے اچھا شگون لیتے ہوئے آپ نے اپنے ساتھیوں کو آسانی کی خوشخبری سنا دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ اور صحابیات کے برے معانی والے نام اچھے معانی والے ناموں کے ساتھ تبدیل کر دیے تھے۔ جیسا کہ ایک صحابیہ جس کانام عاصیہ یعنی نافرمانی کرنے والی تھا ، اس کو تبدیل کر کے جمیلہ رکھ دیا ۔ اسی طرح ’’حزن ‘‘ نامی صحابی کا نام سہل اور اصرم صحابی کا نام زرعہ رکھ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شگون لینا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک میں نیک شگون کا بڑا عمل دخل تھا۔ جب آپ ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو آپ مدینے کی بالائی جانب سے قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں اترے، تو یہ آپ کے دین کی بلندی کا نیک شگون تھا۔ اس کے بعد آپ نے اونٹوں کے ایک چرواہے کو دیکھا تو پوچھا کہ یہ کس کے اونٹ ہیں؟ اس نے بتایا کہ’ اسلم‘ قبیلے کے ایک آدمی کے ہیں۔ آپ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر فرمایاکہ ان شاء اللہ تو سلامتی میں رہے گا۔
Flag Counter