Maktaba Wahhabi

115 - 186
فال اچھی چیز ہے۔ کیوں کہ جب انسان اپنے رب کے بارے میں اچھا خیال اور اچھی امید رکھتا ہے تو اس وقت وہ بھلائی پر ہوتا ہے۔ اگر اس کی امید پوری نہ بھی ہو تب بھی اس کا رب کے ساتھ تعلق اور توکل مضبوط ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں انسان کے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے۔ اسی طرح تفاؤل بندے کا اپنے رب کے بارے میں اچھا گمان ہے اور ایک مؤمن کو ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کا ہی حکم دیا گیاہے۔ اہل علم نماز استسقاء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چادر کو الٹانے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ہم آپ کی سنت سمجھتے ہوئے کپڑے کو الٹتے ہیں اور اس سے یہ شگون لیتے ہیں کہ جیسے اس چادر کی حالت تبدیل ہو گئی ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ ہماری حالت کو بدل دیں گے۔ اگر اس مواقع پر بارش نازل نہ بھی ہو تو اللہ تعالیٰ پر ایمان و توکل تو مضبوط ہوا۔ تو ایمان کا مضبوط ہونا بارش سے بھی زیادہ اہم ہے کیوں کہ یہ تو عقیدے کا معاملہ ہے۔ فال کا حکم: فال‘کا حکم استحباب کا ہے اوراچھی ’فال‘ سے مراد وہ معاملات ہیں کہ جن کی طرف شریعت رہنمائی کرتی ہے۔ مصیبت میں مبتلا بندے کو نیک شگون لیناضروری ہے کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اچھا گمان پیدا کرتی ہے۔ اسی لیے ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ میں اپنے بارے میں بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں۔‘‘ بندے کا اپنے رب سے ناامید ہوجانا اس کے لیے تباہی ہے اور یہی بدشگونی ہے کہ جو برے گمان پیدا کرتی اور آزمائشوں کولاتی ہے۔ بدشگونی وہ چیز اور معانی ہیں کہ جنہیں آدمی پسند نہیں کرتا۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بد شگونی کو ناپسند کیا کرتے تھے کیوں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں برے گمان پیدا ہوتے ہیں۔ عربوں کی حالت: عربوں کے ہاں جاہلیت میں بہت زیادہ بدشگونی پائی جاتی تھی۔ وہ پرندے کو چھوڑتے، اگر وہ دائیں طرف کو اڑجاتا تو باعث برکت خیال کرتے اور اپنے سفر اور دیگر ضروریات کو
Flag Counter