(مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللّٰهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ وَإِنَّهُ لَيَدْنُو ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ) (صحيح مسلم‘ الحج‘ باب فضل يوم عرفة‘ ح: 1348)
’’جس کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ بندوں کو عرفہ کے دن جہنم سے آزادی عطا کرتا ہے اور کسی دن اس کثرت سے نہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں کے قریب ہو کر ان پر اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(انْظُرُوا إِلَى عِبَادِي ، أَتَوْنِي شُعْثًا غُبْرًا يَرْجُونَ رَحْمَتِي ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ) (صحيح ابن خزيمة‘ الحج‘ باب تباهي اللّٰه اهل السماء باهل عرفات‘ ح: 2840 وصحيح ابن حبان ‘ الحج‘ باب ما جاء في الوقوف بعرفة والمزدلفة‘ ح: 1006)
’’ میرے بندوں کی طرف ذرا دیکھو تو سہی، میرے پاس پراگندہ حال اور غبار آلود ہو کر آئے ہیں۔ یہ میری رحمت کے طلب گار ہیں۔ میں تمہیں گواہ بنا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں نے انہیں معاف کر دیا ہے۔‘‘
یہ بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(وَقَفْتُ هَاهُنَا، وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ) (صحيح مسلم‘ الحج‘ باب ما جاء ان عرفة كلها موقف‘ ح: 149/1218)
’’میں نے یہاں وقوف کیا ہے لیکن سارا عرفہ موقف ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد ازاں غروب آفتاب کے بعد لبیک کہتے ہوئے مزدلفہ کی طرف روانہ ہوئے، وہاں آپ نے نماز مغرب کی تین اور عشاء کی دو رکعتیں ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ادا فرمائیں، رات بھی یہیں بسر فرمائی اور صبح کی نماز سنتوں سمیت ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ ادا فرمائی۔[1] پھر آپ مشعر کے پاس تشریف لے آئے اس کے پاس اللہ کا ذکر کیا، تکبیر اور تہلیل میں مصروف رہے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور فرمایا:
(وَقَفْتُ هَاهُنَا، وَ جَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ) (صحيح مسلم‘ الحج‘ باب ما جاء ان عرفة كلها موقف‘ ح: 149/1218)
’’ میں نے یہاں وقوف کیا ہے جب کہ سارا مزدلفہ موقف ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ حجاج کے لیے سارا مزدلفہ موقف ہے۔ ہر حاجی اپنی اپنی جگہ رات بسر کرے، اپنی جگہ ہی پر اللہ تعالیٰ کا ذکر اور استغفار کرے اور یہ ضروری نہیں کہ صرف اسی جگہ وقوف کیا جائے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقوف فرمایا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کمزور لوگوں کو مزدلفہ کی رات ہی رخصت دے دی تھی کہ وہ رات کے وقت ہی منیٰ روانہ ہو جائیں[2] تو اس سے معلوم ہوا کہ کمزوروں یعنی عورتوں، بیماروں اور بوڑھوں وغیرہ کے لیے اس رخصت پر عمل کرتے ہوئے
|