Maktaba Wahhabi

123 - 160
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کو دعوت دینے کا ذکر درج ذیل آیات شریفہ میں ہے: {وَقَالَ مُوْسٰی یٰفِرْعَوْنُ إِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔حَقِیْقٌ عَلٰٓی أَنْ لَّآ أَقُوْلَ عَلَی اللّٰہِ إِلَّا الْحَقَّ قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَأَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْٓ إِسْرَآئِیْلَ۔} [1] ’’ اور موسیٰ علیہ السلام نے کہا:’’ اے فرعون!بے شک میں جہانوں کے رب کی طرف سے بھیجا ہوا ہوں۔میرے لیے یہی شایاں ہے،کہ سوائے حق کے،اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بات منسوب نہ کروں۔بلاشبہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل لے کر آیا ہوں،سو میرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو توحید و رسالت کے اقرار کی دعوت دی اور اس کے لیے بیان کیا،کہ وہ واضح اور عظیم دلیل لے کر اس کے پاس آئے ہیں۔پھر انہوں نے اسی بنیاد پر اپنا یہ مطالبہ پیش کیا: [سو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دیجیے] یعنی انہیں اپنی قید سے آزاد کردے اور اپنے جبر و ظلم کی غلامی سے رہائی دے دے،تاکہ وہ تیرا ملک چھوڑ کر میرے ساتھ کسی اور ملک میں چلے جائیں اور وہاں میرے اور تیرے رب کی [کما حقہ] عبادت کرسکیں۔] [2] خلاصۂ کلام یہ ہے،کہ حضرت موسیٰ اور دیگر انبیاء علیہم السلام توحید و رسالت کے اقرار کی طرف بلانے کے بعد،اپنی اپنی اُمتوں کو،ان کے احوال کو پیش نظر رکھتے ہوئے دعوت دیتے رہے۔
Flag Counter