Maktaba Wahhabi

239 - 531
رات کے آخری حصہ میں مزدلفہ سے منیٰ کی طرف چلے جانے میں کوئی حرج نہیں تاکہ وہ بھیڑ کی مشقت سے بچ سکیں۔ ان کے لیے رات کو جمرہ کو رمی کرنا بھی جائز ہے جیسا کہ حضرت ام سلمہ اور حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس کی اجازت دے دی تھی،[1] پھر جب خوب اچھی طرح دن روشن ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تلبیہ پڑھتے ہوئے منیٰ کی طرف روانہ ہوئے،[2] جمرہ عقبہ کا قصد فرمایا، اسے سات کنکریاں ماریں اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہا، پھر آپ نے اپنی ہدی کو نحر کیا اور پھر سر مبارک کے بال منڈوا دئیے، پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو خوشبو لگائی، پھر آپ بیت اللہ شریف لے گئے اور طواف فرمایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قربانی کے دن یہ پوچھا گیا کہ جو شخص رمی سے پہلے قربانی کر دے، یا قربانی سے پہلے بال منڈوا دے یا رمی سے پہلے طواف افاضہ کر لے۔۔۔ تو اس طرح کے تمام سوالوں کے جواب میں آپ نے فرمایا: ’’کوئی حرج نہیں۔‘‘[3] راوی کا بیان ہے کہ اس دن جس چیز کے بھی مقدم یا مؤخر کر دینے کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :’’وہ کر لو کوئی حرج نہیں۔‘‘[4] ایک آدمی نے آپ سے یہ پوچھا کہ میں نے طواف سے پہلے سعی کر لی ہے۔تو آپ نے فرمایا :’’کوئی حرج نہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ حاجیوں کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ عید کے دن رمی جمرہ سے آغاز کریں پھر نحر کریں جب کہ ان پر ہدی لازم ہو اور پھر سر کے بالوں کو منڈوا یا کتروا دیں، لیکن بالوں کو منڈوا دینا کتروا دینے سے افضل ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بال منڈوانے والوں کے لیے مغفرت و رحمت کی تین بار اور بال کتروانے والوں کے لیے ایک بار دعا فرمائی تھی۔۔۔[5] اس سے حجاج کو تحلل اول حاصل ہو جاتا ہے یعنی وہ سلے ہوئے کپڑے پہن سکتے اور خوشبو استعمال کر سکتے ہیں اور ان کے لیے عورتوں کے سوا ہر اس چیز کا استعمال مباح ہو جاتا ہے جو احرام کی وجہ سے حرام ہوا تھا۔ پھر حجاج بیت اللہ جائیں اور عید کے دن یا اس کے بعد طواف کریں اور اگر حج تمتع ہے تو صفا و مروہ کی سعی بھی کریں، اس سے ان کے لیے عورتوں سمیت ہر وہ چیز حلال ہو جائے گی جو احرام کی وجہ سے حرام ہوئی تھی۔ حاجی اگر مفرد یا قارن ہو تو اس کے لیے وہ سعی اول ہی کافی ہے جو اس نے طواف قدوم کے ساتھ کی تھی اور اگر طواف قدوم کے ساتھ سعی نہ کی ہو تو ضروری ہے کہ طواف افاضہ کے ساتھ سعی کر لی جائے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ واپس تشریف لے آئے اور آپ عید کے دن کا باقی حصہ اور گیارہ بارہ اور تیرہ تاریخ تک یہیں مقیم رہے۔ ان ایام تشریق میں ہر دن آپ زوال کے بعد جمرات کو رمی کرتے رہے، ہر جمرہ کو سات کنکریاں مارتے،[6]
Flag Counter