Maktaba Wahhabi

85 - 213
یہ سب ضعفاء ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کومختلف قوموں اور أشراف کی غلامی کرنی پڑی، جن کو دین قبول کرنے پر ماریں کھانی پڑیں۔ سبقت کی اہمیت: عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اسلام کا ابتدائی دورہے، آکر پوچھا کہ تم اللہ کے سچے نبی ہو؟فرمایا کہ ہاں سچا نبی ہوں،پوچھا :’’من اتبعک؟ ‘‘ اب تک کتنے لوگوں نے آپ کی اتباع کی ہے؟فرمایا کہ صرف دو ہی ہیں:’’عبد وحر‘‘ ایک غلام ہے اور دوسرا آزاد ہے۔ ایک بلال حبشی اور دوسرے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما !عمرو نے کہا کہ میں بھی اسلام قبول کرناچاہتاہوں،فرمایا :’’أنت لاتستطیع ذلک‘‘ عمرو! تم اسلام قبول کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ،ابھی تم لوٹ جاؤ اور جب دیکھو کہ ’’إن أمری قد ظھر‘‘ میرامعاملہ غالب آچکا ہے اور اللہ نے کمزوری ختم کردی اور یہ آزمائش کادور ختم ہوچکا،پھر تم آجانا اور اسلام قبول کرلینا، ان حالات میںتم میں طاقت نہیں ہے،تمہاری قوم تم کوپکڑ لے گی اور بڑی ایذائیں دے گی ،حتی کہ ہوسکتاہے تم ڈر کے مارے تکلیفوں سے ڈرکررجوع کرلو،اوردین کوچھوڑ دو، ابھی تم چلے جاؤ،عمرو کاکہنا ہے کہ کاش اس وقت میں نے اسلام قبول کرلیاہوتا ،تو’’کنت رابع الإسلام‘‘ اس پوری کائنات میں چوتھا مسلمان میں ہوتا۔[1]
Flag Counter