تہجد اور سحری کی اذان کا مسئلہ
علاوہ ازیں پہلی اذان کا تعلق صرف رمضان سے نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر اس کو سحری کی اذان کہا اور سمجھا جاتا ہے اور اس بنا پر اس کو رمضان کے ساتھ خاص کردیا گیاہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ سارا سال ہوتی تھی۔ دراصل بعض روایات کے الفاظ سے، جن میں آتا ہے کہ ’’بلال کی (پہلی ) اذان تمہیں کھانے پینے سے نہ روکے‘‘ سے یہ مغالطہ لگا کہ یہ رمضان کی اذان اور اس کی پہلی اذان ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ الفاظ اس لیے فرمائے تھے کہ صحابۂ کرام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نفلی روزے رکھتے رہتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان الفاظ سے مقصود یہ تھا کہ سحری کھانے والے بلال کی اذان کو طلوعِ فجر کے بعد ہونے والی اذانِ فجر نہ سمجھ لیں اور سحری کھانے سے نہ رک جائیں بلکہ وہ اس اذان کے بعد بھی اگر سحری کھا رہے ہوں تو سحری کھاسکتے ہیں جب تک کہ عبد اللہ بن ام مکتوم اذان نہ دیں ۔ بنابریں بعض مساجد اہلحدیث میں اذانِ فجر سے کافی دیر پہلے نمازِ تہجد کے لیے یا رمضان المبارک میں سحری تیار کرنے کی نیت سے پہلی اذان دی جاتی ہے، یہ دونوں اذانیں محل نظر ہیں ۔ دو اذانیں اگر دی جائیں جیسا کہ عہدِ رسالت میں معمول تھاتو اسی طرح اور اتنے وقفے سے دی جائیں جس طرح حدیث میں آتا ہے۔ واللہ اعلم۔
اذان کا جواب : اذان سن کر وہی الفاظ کہے جائیں جو مؤذن کہتا ہے، البتہ
حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ
’’آؤ ! نماز کی طرف ، آؤ ! کامیابی کی طرف ۔‘‘
|