Maktaba Wahhabi

324 - 325
باب فی وداعہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں لکھا ہے کہ طبرانی نے اسناد حسن کے ساتھ عروہ بن زبیر سے روایت کیا ہے کہ صفیہ رضی اللہ عنہ بنت عبدالمطلب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مرثیہ کہتے ہوئے کہا۔ الا یا آنحضرت کنت رجاء نا وکنت بنا برا ولم تک جافیا یہ طبرانی کی روایت ہے ‘لیکن دحلان نے تحریف کرکے اس شعر کو اپنی کتاب’’ الدررالسنیہ فی الرد الوہابیہ‘‘ میں ’’کنت رجاء نا ‘‘کے بجائے انت رجاء نا لکھ دیا ہے تاکہ اس سے وہ ثابت کرسکیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح اپنی زندگی میں لوگوں کی امیدیں پوری کردیا کرتے تھے ‘اب اپنی وفات کے بعد بھی اسی طرح پوری کرسکتے ہیں۔دحلان کی یہ حرکت اس ارشاد الٰہی کے مطابق ہے۔فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَھُمْ(ان ظالموں سے جو بات کہی گئی تھی اس کی جگہ انہوں نے دوسری بدل دی۔) شیخ محب الدین طبری نے ’’ذخائر العقبیٰ فی مناقب القربیٰ‘‘میں لکھا۔کنت رجاء نا۔ہے انت رجاء نا۔نہیں۔دحلان نے یہ کھلم کھلا تحریف کی ہے۔بھلا بتائیے کیا تحریف وتبدیل ہی کو اب حجت ودلیل بنایا جائے؟ایسی دلیل تو کوئی بے حیاء ہی پیش کرسکتا ہے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا صحیح جملہ کنت رجاء نا تو دراصل ان لوگوں کے کے عقیدہ باطلہ کی کھلی تردید ہے ‘کیونکہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی
Flag Counter