Maktaba Wahhabi

285 - 325
ابوحرب الہلالی سے روایت کی ہے۔اور بعض کذاب راویوں نے اس کو علی بن ابی طالب کی سند سے بھی روایت کیا ہے۔ الغرض دیہاتی کا یہ قصہ اس قابل نہیں کہ اس کو دلیل بنایا جائے اور اس پر اعتماد کیاجائے پھر یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ دیہاتی کون ہے جس کا نہ نام مذکور نہ دیگر کوئی تفصیل۔لہٰذا ایسے مجہول اعرابی کی حکایت پر عمل وعقیدہ کی بنیاد قائم نہیں کی جاسکتی۔یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ اعرابی صحابی تھا یا نہیں؟لیکن کسی صحابی اعرابی کا کوئی ایسا فعل احادیث وتاریخ میں مذکور نہیں فرض کرلو یہ واقع صحیح تھا تو بھی اس سے مخلوقات کی ذات کا وسیلہ کہاں ثابت ہوتا ہے؟یہ دیہاتی تو محض اس وہم میں قبر پرگیا کہ ممکن ہے آپ(معاذ اﷲ)وفات کے بعد بھی شفاعت فرماتے ہوں۔حالانکہ شفاعت کا صحیح وقت تو قیامت کے دن کا ہے اور اﷲکی اجازت ومرضی کے ساتھ مشروط ہے۔چنانچہ بعض روایات میں اعرابی کے پڑھے ہوئے دونوں اشعار کے علاوہ ایک تیسرا شعر بھی موجود ہے جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اعرابی کو یہ یقین وعلم حاصل تھا کہ شفاعت کا صحیح وقت قیامت کادن ہے چنانچہ اس کا تیسرا شعر یہ ہے۔ انت النبی الذی ترجٰی شفاعتہ عند ا لصراط اذا ما زلت القدم آپ ہی وہ نبی ہیں جن کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے پل صراط سے گذرتے وقت جب قدم ڈگمگاجائیں
Flag Counter