Maktaba Wahhabi

283 - 325
شفاعت کے بارے میں یہ ایسی بنیادی باتیں ہیں جو ہر مومن کے عقیدہ سے تعلق رکھتی ہیں اور تمام مسلمانوں کو اس کو علم بھی ہے ‘اور شاید ہی کوئی مسلمان اس سے ناواقف ہو۔لیکن صحابہ کرام رضی اﷲعنہم کے عہد مبارک میں کوئی ایسی بنیادی غلطی اور کھلی جہالت کا ارتکاب کرے یہ تصور بھی نہیں کیاجاسکتا ‘اور وہ بھی کوئی مجہول اور غیر معروف شخص نہیں ‘بلکہ حضرت علی رضی اﷲعنہ جیسے معروف ومخصوص صحابی سے اس کا صدور تعجب خیز ہی نہیں ناممکن بھی ہے ایسی صورت میں ہر صاحب ایمان یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ پورا واقعہ ہی سرے سے غلط اور من گھڑت ہے۔ (۶) پہلی اور دوسری روایتوں میں کھلا ہوا تضاد ہے۔پہلی روایت میں ہے کہ ’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قبر سے جواب دیا کہ اﷲنے تم کو بخش دیا۔‘‘اور دوسری روایت میں ہے کہ۔’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عتبی کو خواب میں نظر آئے اور عتبی سے کہا کہ اعرابی سے مل کر کہو کہ اﷲنے اس کو بخش دیا۔‘‘ غور فرمائیے کہ جب پہلی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے اعرابی کو بشارت خود بہ نفس نفیس دے دی تھی تو پھر دوسری روایت کے مطابق اسی کام کیلئے عتبی کو پابند کرنے کی کیا ضرورت تھی؟دونوں روایتوں کا یہ لاحاصل تکرار وتضاد خود اس بات کی دلیل ہے کہ واقعہ من گھڑت اور موضوع ہے۔۔اس حدیث کا گڑھنے والا یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وفات کے بعد بھی اپنی امت سے ملنا ممکن ہے حالانکہ یہ محال وناممکن ہے۔
Flag Counter