جو شخص سفر سے واپس آئے یا سفر کے لئے نکل رہا ہواس کے لئے حرج نہیں کہ قبر نبوی کے سامنے کھڑا ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لئے دعامانگے آپ سے کہا گیا کہ مدینہ کے کچھ لوگ نہ تو سفر سے واپس ہوتے ہیں نہ سفر کیلئے نکلتے ہوئے بلکہ یوں ہی دن میں ایک یا دومرتبہ ایسا کرتے ہیں اور جمعہ کو اکثر اور عام دنوں میں بھی ایک یا دومرتبہ قبر کے پاس کھڑے ہوکر سلام کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔امام مالک نے جواب دیا کہ اپنے شہر کے کسی عالم سے میں نے ایسا نہیں سنا اور نہ ہی اس امت کے دور اوّل کے لوگوں کی طرف سے یہ خبر ہم تک پہنچی کہ وہ ایسا کرتے تھے۔قبرپر آکر سلام پڑھنا اور دعا کرنا صرف اسی کیلئے جائز ہے جو سفر سے واپس آیا ہو یا سفر کے لئے نکل رہا ہو‘ان کے علاوہ دوسروں کیلئے جائز نہیں ہے۔
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کا بیان ہے کہ یہ سارا قصہ ہی منقطع ہے ‘کیونکہ محمد بن حمید نے امام مالک کو پایا ہی نہیں خصوصاً ابوجعفر کے زمانے میں۔ابوجعفر کی وفات مکہ میں ۱۵۸ھ میں ہوئی اور امام مالک رحمہ اللہ نے ۱۷۹ھ میں وفات پائی اورمحمد بن حمید ۲۴۸ھ میں مرا اور جب وہ اپنے والد کے ساتھ اپنے شہر سے حصول علم کیلئے نکلا تو اس کی عمر بہت تھی۔اس کے باوجود محدثین اس کو ضعیف کہتے ہیں۔
ابوزرعہ اور ابن وارہ نے اس کو کذاب کہا ہے ‘اور صالح بن محمد الاسدی کہتے ہیں کہ وہ اﷲپر جھوٹ بولنے میں بڑا جری اور چالاک ہے۔جیسا کہ مذکور ہوا۔یہ
|